سندھ کے ادیبوں نے رفیعہ بخاری کو دکھ، درد اور احساسات کی شاعرہ قرار دیدیا

دکھوں کا مقابلہ کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ دکھوں کو طاقت میں بدلا جائے اور پھر اسی طاقت سے جدوجہد کی جائے،پروفیسر مشتاق مہر

پیر 21 جولائی 2025 20:50

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جولائی2025ء)سندھ کے ادیبوں نے رفیعہ بخاری کو دکھ، درد اور احساسات کی شاعرہ قرار دیا ہے۔ کراچی کے علاقے بھٹائی آباد میں "علمی ادبی فورم" کی جانب سے معروف مصنفہ اور شاعرہ رفیعہ بخاری کی انگریزی میں شائع ہونے والی نثری نظموں پر مشتمل کتاب کے سندھی ترجمے "پینگہو" کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی، جس کی صدارت شاہ لطیف کے محقق ڈاکٹر شیر مہرانی نے کی۔

اس موقع پر کتاب کے مترجم سکندر عباسی، ادبی فورم کے صدر پروفیسر مشتاق مہر، معروف مصنف محمد علی پٹھان، پروفیسر ڈاکٹر جاوید شیخ، علی بخش پٹھان۔جاوید مہر، طاہرہ مشتاق اور دیگر نے خطاب کیا۔مقررین نے کہا کہ رفیعہ بخاری نے معاشرتی مسائل اور مختلف رشتوں پر جس انداز سے بات کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر احساس کو محسوس کرتی ہے اور خوبصورتی سے بیان کرنا جانتی ہے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر شیر مہرانی نے کہا کہ آج کی عورت اپنے خیالات، وجود اور ہر قدم پر مسلط جکڑ سے نکلنا چاہتی ہے۔ رفیعہ بخاری موم بتی تھامے آگے بڑھنے کی خواہش رکھتی ہے اور اندھیرے میں روشنی جلانے کا جذبہ رکھتی ہے۔محمد علی پٹھان نے کہا کہ رفیعہ بخاری کی یہ کوشش قابل تعریف ہے کہ اتنے کم وقت میں انہوں نے اعلی معیار کی نثری شاعری تخلیق کی ہے، اور امید ہے کہ وہ اسی جذبے کے ساتھ آگے بھی لکھتی رہیں گی۔

پروفیسر مشتاق مہر نے کہا کہ رفیعہ بخاری نے جس انداز میں درد کو بیان کیا ہے، اگر شاہ لطیف ہوتے تو شاید اسے اپنی آٹھویں سورمی قرار دیتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دکھوں کا مقابلہ کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ دکھوں کو طاقت میں بدلا جائے اور پھر اسی طاقت سے جدوجہد کی جائے۔پروفیسر جاوید شیخ نے کتاب کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے چند غلطیوں کی نشاندہی بھی کی۔

سکندر عباسی نے کہا کہ انہوں نے پوری کوشش کی ہے کہ مصنفہ جو کچھ کہنا چاہتی ہے، وہ انگریزی سے سندھی میں روح کے مطابق منتقل ہو۔ کتاب کی مصنفہ رفیعہ بخاری نے کتاب کی رونمائی پر ادبی فورم کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے بتایا کہ ایک دن وہ یوں ہی انگریزی اخبار پڑھ رہی تھیں تو انہیں نثر میں لکھنے کا خیال آیا، جس کے بعد انہوں نے اپنے بکھرے خیالات کاغذ پر منتقل کیے۔

انہوں نے کہا کہ وہ آئندہ بھی مزید لکھنے کی خواہش رکھتی ہیں۔تقریب میں عبدالستار رستمای، حسین ضیا ابڑو، انور صالح، عبدالعزیز ابڑو، طارق مشتاق، محمد خان مہر، محمد ایوب پٹھان اور عائشہ صدیقہ بھی شریک ہوئے۔ آخر میں موسیقی کی محفل ہوئی جس میں فقیر علی نواز سیفی، عارف سونا، غلام رسول جاجکانی اور دیگر فنکاروں نے فن کا مظاہرہ کیا۔

متعلقہ عنوان :