پاکستان میں انشورنس کے شعبہ کا مستقبل روشن ہے، میاں رضوان

جمعہ 25 جولائی 2025 15:59

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 جولائی2025ء)اسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی کے /ڈویژنل ہیڈ مارکیٹنگ میاں رضوان نے کہا ہے کہ پاکستان میں انشورنس کے شعبہ میں بہت زیادہ ترقی کے آثار موجود ہیں۔دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ بات انہوں نے کراچی ایڈیٹر کلب کے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہی جس کا اہتمام کراچی ایڈیکٹر کلب کے صدر مبشر میر اور سیکریٹری جنرل منظر نقوی نے کیا تھا۔

اس موقع پر اقبال جمیل ، جاوید ملک اور عظیم قریشی نے بھی شرکت کی۔ میٹ دی پریس سے خطاب کے موقع پر میاں رضوان نے کہا کہ جب اسٹیٹ لائف کو قومی ملکیت میں لیا گیا تو اس وقت یہ طے ہوا تھا کہ اسٹیٹ لائف کی جو آمدنی ہوگی وہ رئیل اسٹیٹ کے بزنس میں خرچ کی جائے گی اور اس ہی کی وجہ سے آج کراچی میں ہماری تقریبا 17 سے زیادہ بلڈنگز ہیں جبکہ پورے پاکستان میں 70 سے زیادہ بلڈنگز موجود ہیں۔

(جاری ہے)

دراصل پاکستان میں لوگ اس قدر چھوٹے موٹے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جسکی وجہ سے انشورنس کی جانب ان کا دھیان نہیں جاتا کیونکہ جب آپ کے پاس کچھ پیسہ بچت ہو تو اس صورت میں انشورنس کروایا جاتا ہے جبکہ باہر ممالک میں انشورنس جو عوام کی دلچسپی ظاہر کرتی ہے۔حکومت کے ساتھ وہاں لوگ گاڑی بغیر انشورنس کے سڑک پر نہیں لاسکتے، بچے اسکول نہیں جاسکتے، یہاں تک کہ بنک اکانٹ تک نہیں کھلواسکتے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ایم اے صحافت میں کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ میڈیا بہت بڑی پاور ہے اور وہ ہمارے شعبہ کو ترقی کے منازل طے کروانے میں ہمیشہ سے بہت مددگار ثابت ہوا ہے۔ ہمارے بورڈ میں بیوروکریٹس بھی آتے رہے ہیں لیکن یہ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ 2022 سے 2025 تک ایک نئی تبدیلی آئی ہے کہ پہلے ہمارے پاس لانگ ٹرم پلان ہوتے تھے، لیکن اب شارٹ ٹرم پلان ہوتے ہیں، یعنی تین سال تک کے پلان ہوتے ہیں۔

2022 میں ہمارا بزنس 12بلین روپے تھا، نیو پالیسی کے تحت 4 سال میں 30 بلین تک پہنچ گئے ہیں، اب ہماری نیو پرمیئم ہوگیا ہے اور اس وقت اسٹیٹ لائف حکومت کو سپورٹ کررہی ہے۔ کامرس منسٹری میں آتے ہیں، یہ ہر سال حکومت کو بہت سا منافع دیتی ہے، یہ حکومت کا منافع بخش ادارہ ہے، ، اس کے علاوہ ہمارا گروپ انشورنس ڈپارٹمنٹ ہے، میں مارکیٹنگ کو Reprsent کرتا ہوں، مارکیٹنگ کے حوالے سے ہم لوگوں کو روزگار بھی مہیا کرتے ہیں، اس وقت ڈیڑھ لاکھ فورس مارکیٹنگ کی کام کررہی ہے، 1360 ہمارے ایریا منیجر کام کررہے ہیں، 250 سیکٹر ہیڈ کام کررہے ہیں، اس طرح 37 زون ہیں پاکستان میں اور 7 ریجن ہیں۔

کراچی میں ہمارا پرنسپل آفس ہے۔ ہم جہاں انشورنس کوریج دے رہے ہیں وہاں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے اسٹیٹ لائف ایک بیسٹ انسٹیٹیوٹ ہے، دراصل لوگوں کے ویوز جو ہیں وہ ہماری عادت بھی ہے اور کلچر کا حصہ بھی، ہم ہر چیز میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں، چاہے ہمیں اس چیز کے بارے میں پتہ بھی ہے یا نہیں۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ ہم گردن سے نیچے ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں، گردن سے اوپر 10 روپے بھی خرچ نہیں کرتے۔

مثلا کپڑے جو کہ گردن سے نیچے ہوتے ہیں، وہ ہزاروں کے ہوتے ہیں لیکن گردن سے اوپرخرچ نہیں کرتے، کتابیں نہیں پڑتے پھر ہمیں مشکل پیش آجاتی ہے۔ اور ہم بیان کی شکل میں پیش کرتے ہیں، دراصل آپ کا مقصد بھی وہی ہے جو ہمارا کہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنا۔یہ انشورنس دراصل امیر کے علاوہ غریب سے غریب تر کیلئے بھی ضروری ہے، چھوٹی چھوٹی بچت سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں، آخر میں بڑی خوشی ملتی ہے۔

اس موقع پر کراچی ایڈیٹر کلب کے صدر مبشر میر نے کلب کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم بھی صحافت کے شعبہ میں خدمات انجام دے رہے ہیں ہمارے بھی اجلاس ہوتے ہیں اور اس میں غورحوض ہوتا ہے، یہ دراصل ایک چھٹا سے تھنک ٹینک ہے، کون سے ادارے کیا کررہے ہیں اور ہم ان کے بارے میں کیا لکھ سکتے ہیں اور بول سکتے ہیں۔ ہم 2016 سے کام کررہے ہیں، یوں تو میڈیا کی اور بھی آرگنائزیشن موجود ہیں جو کام کررہی ہیں۔

ہماری سب سے زیادہ جو مدد کی وہ عظیم قریشی صاحب کی وہ اس وقت بیچ لگژری ہوٹل کے جنرل منیجر تھے، ہوٹل آواری کے مالک بہرام جی آواری نے بھی ہماری سرپرستی فرمائی، ہم ان کے ادارے کے شکر گذار ہیں، ہم اس وقت جامعات کے طلباو طالبات کے لیے بہت کام کررہے ہیں اور اقبال جمیل ہمارے اس سلسلے میں مدد کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کئی سیمینار کرائے ہیں، ہمارا اصل مقصد بات چیت کا دروازہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ انشورنس کے شعبہ کی بھی بہت قدر کرتے ہیں، باہر ممالک میں تو انشورنس کی اندسٹری نے دوسرے شعبوں کو سہارا دیا ہوا ہے، ہمارے ملک میں بدقسمتی سے یہ شعبہ اسقدر آگے نہیں ہے۔

اس شعبہ کو آگے بڑھنا چاہیے۔ پاکستان میں حادثات ہوئے ہیں، ریلوے کے حادثات میں کوئی انشورنس نہیں ہے۔ کراچی میں بلڈنگ گرگئی تو لوگوں کا انشورنس نہیں تھا۔ بیماری کا زیادہ خطرہ رہتا ہے، پرائیویٹ سیکٹر میں لوگ کام کرتے ہیں، وہاں بھی لوگوں کو انشورنس کی سہولت فراہم نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے انہیں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ لہذا آپ لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہمارے لیے اچھا ثابت ہوسکتا ہے، نئے آئیڈیاز پر کام کراسکتے ہیں کہ ایڈیٹر کلب آپ کے ساتھ مل کر کس طرح کام کرسکتا ہے اور آپ ایڈیٹر کلب کے ساتھ کس طرح کام کرسکتے ہیں۔

اس موقع پر عظیم قریشی نے کہا کہ میں کراچی ایڈیٹر کلب کا ہمیشہ سے خیرخواہ رہا ہوں اور کوشش رہی ہے کہ ایسی شخصیت کو ایڈیٹر کلب کے پروگرام میں لے کر آں جو پاکستان کو آگے بڑھنے میں مدد کررہا ہو کیونکہ پاکستان کو اس وقت ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے۔ اسٹیٹ لائف وہ انشورنس کمپنی ہے جس نے پاکستانیوں کو بیمہ پالیسی کے بارے میں بتایا۔ ہم لوگ انشورنس کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم اسٹیٹ لائف کی بات کرتے ہیں تو میں یہ کہوں گا کہ یہ لوگ بالکل الگ ٹائپ کے لوگ ہیں ان کا اوڑھنا بچھونا انشورنس پالیسی ہے۔ ہوٹلنگ کا کام اور اسٹیٹ لائف الگ رہ نہیں سکتے، دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ہوٹل میں ان کا پروگرام ہوتا ہے جس میں ہوٹل کے ڈیڑھ سو سے دو سو کمرے بک ہوتے ہیں۔ اگر یہ کارپوریشن آگے بڑھتی ہے تو ملکی معیشت پر اچھے اثرات پڑتے ہیں۔

ان کی اربوں روپے کی جائیدادیں ہیں جن کا کرایہ آتا ہے۔ اسٹیٹ لائف بھی ایڈیٹر کلب کی طرح عوام کی مدد کررہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ لائف نے پاکستان میں پہلی جونیئر کرکٹ لیگ کا انعقاد کروایا، اس کے علاوہ مختلف ایونٹ ہوتے ہیں اس کو ہم اسپانسر کرتے ہیں، لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ صحت کے شعبہ میں بھی ہماری سروسز ہیں، مجھے فخر ہے کہ ہمارا ادارہ لوگوں کو مالی طور پر بھی اور دیگر ذرائع سے بھی تحفظ فراہم کررہا ہے۔

پاکستان کی ترقی میں بھی اہم کردار ہے۔ ایک اورسوال کے جواب میں کہ جب ہم کہیں پیسہ خرچ کرتے ہیں تو FBR ہم سے پوچھتا ہے کہ کہاں خرچ کیا، کہتے ہیں انشورنس جتنی مرضی کرالو FBR نہیں پوچتھا۔ انشورنس پر کسی قسم کا کوئی قدغن نہیں ہوتی کیا یہ درست ہی انہوں نے کہا کہ یہ بالکل درست ہے اس پر کوئی پابندی نہیں ، کیونکہ ہمارا پیسہ بالکل درست ہے، ہم بھی حکومت کے رولز کے تحت لیتے ہیں، جب ہم لوگوں کو انکی رقم واپس کرتے ہیں تو تب بھی کسی بھی قسم کے ٹیکس کی کٹوتی نہیں ہوتی، انکے تمام بونس انہیں واپس کرتے ہیں، اسکے علاوہ دیگر سوالوں کے بھی جوابات دیئے گئے۔