باپ بیٹی کا سیلابی ریلے میں بہہ جانے کا واقعہ ،سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے نااہلی اور غفلت پر سی ڈی اے کو آڑھے ہاتھوں لے لیا

بدھ 30 جولائی 2025 17:00

باپ بیٹی کا سیلابی ریلے میں بہہ جانے کا واقعہ ،سینیٹ کی قائمہ کمیٹی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 جولائی2025ء)اسلام آباد کی نجی سوسائٹی میں باپ بیٹی کا گاڑی سمیت بہہ جانے کا معاملہ،سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے نااہلی اور غفلت پر سی ڈی اے کو آڑھے ہاتھوں لے لیا جبکہ کمیٹی نے وزارت آبی وسائل کو ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاہے کہ ذمہ داران کا تعین کرکے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائیں۔

جاری اعلامیہ کے مطابق کمیٹی نے ہدایت کی کہ سیلاب کے دوران جن کا نقصان ہوا حکومت ان کی مدد کرے۔انہوںنے کہاکہ بتایا جائے کہ اسلام آباد میں ندی نالوں پر کتنی تجاوزات ختم کی گئیں۔ سینیٹر شہادت اعوان نے کہاکہ تجاوزات اگر ختم ہوتیں تو اسلام آباد میں اتنے لوگ نہ مرتے۔ چیئر مین کمیٹی نے کہاکہ ڈی جی واٹر آئے ہی کیوں، چیئرمین سی ڈی اے کو آنا چاہئے تھا۔

(جاری ہے)

سینیٹر شہادت اعوان نے کہاکہ سی ڈی اے کا کام صرف پلاٹنگ کرنا ہی رہ گیا ہے، کیا آپ کا کام صرف سوسائٹیاں بنوانا رہ گیا ہے۔سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہاکہ سوسائٹیاں بناتے ہوئے باقاعدہ کام کیا جاتا ہے کہ وہاں کتنا پانی آئے گا، ۔کمیٹی میں نجی ہاوسنگ سوسائٹی کے نالے میں بہہ جانے والی گاڑی کا تذکرہ ہوا ۔سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہاکہ نجی سوسائٹی میں گاڑی ایک سڑک سے اٹھی اور نالے میں گر گئی، اس سوسائٹی میں اس نالے کے گرد کوئی جنگلہ یا باڑ نہیں لگائی گئی۔

انہوںنے کہاکہ کیا ان اداروں کا کام نہیں تھا کہ اس نالے کو باہر سے محفوط بناتے۔ سینیٹر شہادت اعوان نے کہاکہ کوئی آدمی ٹھیلہ لگاتا ہے تو سی ڈی اے وہاں پہنچ جاتا ہے۔ سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہاکہ سی ڈی اے نے کسی ڈرین کو صاف نہیں کیا، پانی سڑکوں پر پھرتا رہا، بارشوں میں سی ڈی اے کی نااہلی اور غفلت سامنے آئی ہے۔انہوںنے کہاکہ اسلام آباد میں ہر قسم کی ڈرین ہے پھر پانی کیوں کھڑا ہو جاتا ہے، اسلام آباد میں 6 ماہ پہلے بننے والا انڈرپاس پوری طرح بہہ گیا۔

آبی وسائل کمیٹی نے ایک ماہ میں کاروائی کرکے رپورٹ طلب کرلی۔وزارت آبی وسائل نے گریڈ 17 سے 21 کی 16 خالی آسامیوں پر کمیٹی کا تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ چیئر مین کمیٹی نے کہاکہ مون سون کے نقصانات سے نمٹنے کے لئے تجاوزات کیوں نہیں ہٹائی گئیں۔ شہادت اعوان نے کہاکہ آبی گزرگاہوں سے تجاوزارت نہ ہٹانے والوں کیخلاف کریمینل کارروائی کی جائے۔

حکام نے بتایاکہ صوبوں میں تجاوزات کی روک تھام صوبائی آبپاشی کے محکموں کا کام ہے، اسلام آباد کی حدود میں تجاوزات کی روک تھام آئی سی ٹی انتظامیہ کا کام ہے۔سیکرٹری آبی وسائل نے کہاکہ وفاق میں موجود فیڈرل فلڈ کمیشن کا کام رابطے کا ہے۔ممبر کمیٹی سینٹر ہمایوں مہمند نے کہاکہ کیا 2022کے سیلاب کے بعد ہم نے کوئی بہتری کی۔ چیئر مین کمیٹی نے کہاکہ کمیٹی متعدد بار مون سون کے نقصانات سے نمٹنے کے لئے کہتی رہی، پنجاب میں دریاوں اور آبی راستوں سے 897 تجاوزات کیوں نہ ہٹائے گئے۔

سینیٹر شہادت اعوان نے کہاکہ تجاوزات کو ہٹانے کیلئے عدالتوں کے فیصلے بھی موجود ہیں، کیا لوگ اسی طرح مرتے رہیں گے اور ذمہ داران کچھ نہیں کریں گے، چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ سب سے زیادہ سیلاب سے راولپنڈی اسلام آباد میں آیا، سی ڈی اے اور متعلقہ ادارے کیا کر رہے ہیں۔شہادت اعوان نے کہاکہ اگر اسی طرح کام چلانا تو ان کمیٹیوں کا فائدہ ہے۔

وفاقی وزیر آبی وسائل معین وٹو نے کہاکہ ملکیتی زمینیں بھی دریاوں کے راستوں میں آ چکی ہیں، اب ملکیتی زمینوں پر فصل کاشت سے روکنا بھی مشکل ہے۔ چیئر مین کمیٹی نے کہاکہ ٹھیک ہے ملکیتی زمین پر فصل کاشت ہو پلازے تو نہ بنیں۔سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہاکہ دریاوں میں ملکیتی زمینین کیسے آ گئیں۔ وفاقی وزیر آبی وسائل نے کہاکہ یہ ملکیتی زمینیں دریاوں میں سیلاب آنے سے اس کی زد میں آتی ہیں۔ معین وٹو نے کہاکہ یہ زمینیں دریاوں کے اندر نہیں ہیں، تجاوزات روک تھام کیلئے وفاق اور صوبوں کو مل کر کام کرناہو گا