
ملک میں ڈبے کے دودھ کی حقیقی ضرورت صرف 2 ہزار بچوں کو! لیکن سالانہ اربوں خرچ کیے جاتے ہیں،ماہرین کا انکشاف
اتوار 3 اگست 2025 21:30

(جاری ہے)
ماہرین صحت کے مطابق یہ وہ بچے ہوتے ہیں جن کی مائیں زچگی کے دوران انتقال کر جائیں، شدید بیماری میں مبتلا ہوں یا جنہیں نایاب میٹابولک امراض لاحق ہوں۔اس کے باوجود ملک میں ہر سال 110 ارب روپے سے زائد کا فارمولا دودھ اور بچوں کی تیار شدہ غذا استعمال ہو رہی ہے جو کہ ایک تشویشناک رجحان اور غیر ضروری خرچ ہے۔
دنیا کے نامور ماہر صحت پروفیسر ذوالفقار بھٹہ، سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیونیٹولوجی کے سربراہ پروفیسر جمال رضا اور آغا خان اسپتال کے شعبہ امراض اطفال کی سربراہ پروفیسر فائزہ جہاں کے نوزائیدہ بچوں کی اصل طبی ضرورت اور فارمولا دودھ کے بڑھتے ہوئے استعمال میں بڑا فرق اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بین الاقوامی کمپنیوں کی جارحانہ اور غیر اخلاقی مارکیٹنگ پاکستان میں ماں کے دودھ کے کلچر کو کمزور کر رہی ہے۔انہوںنے کہاکہ بچوں کیلئے ڈبے کا دودھ درآمد اور مقامی طور پر تیار کرنے والی کمپنیوں کو ملک میں کسی بھی مؤثر قانونی روک ٹوک کا سامنا نہیں ہے سوائے صوبہ سندھ میں جہاں پر ایک حالیہ قانون کے ذریعے ان کمپنیوں کو ایک محتاط دائرہ کار میں لایا گیا ہے۔اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ماؤں کی اموات کی شرح 186 فی ایک لاکھ ولادتیں ہے، یعنی صرف چند سو مائیں ہی زچگی کے وقت انتقال کرتی ہیں، اگر دیگر شدید طبی مسائل کو بھی شامل کیا جائے تو ماہرین کا کہنا ہے کہ سالانہ صرف دو ہزار نوزائیدہ بچے ایسے ہوتے ہیں جنہیں فوری طور پر فارمولا دودھ کی ضرورت ہوتی ہے،اس کے برعکس فارمولا دودھ کی صنعت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو زیادہ تر اسپتالوں میں تشہیر، ہیلتھ ورکرز کو دیے جانے والے تحائف اور ایسی پروموشن کی بنیاد پر ہے جو ماؤں کو گمراہ کرتی ہے،فی الحال پاکستان میں سات بڑی بین الاقوامی کمپنیاں فارمولا دودھ کی مارکیٹ پر قابض ہیں۔ یہ کمپنیاں نہ صرف سندھ حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ 2023 میں منظور کیے گئے ‘‘ماں کے دودھ کے فروغ اور بچوں کی غذائی تحفظ کا قانون’’ کو ختم کرے یا نرم کرے بلکہ وفاق اور دیگر صوبوں میں بھی اس قسم کی قانون سازی کو روکنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔سندھ کا یہ قانون جنوبی ایشیا میں بچوں کی غذائیت سے متعلق سب سے جامع قانون سمجھا جا رہا ہے جو عالمی ادارہ صحت کے ‘‘متبادل دودھ کی تشہیر سے متعلق ضابطے’’ اور دیگر بین الاقوامی رہنما اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس قانون کے تحت طبی اداروں میں فارمولا دودھ کی تشہیر، صحت عملے کو تحائف دینا اور بغیر نسخے کے بچوں کو 36 ماہ کی عمر تک ڈبے کا دودھ دینا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔فارمولا کمپنیوں نے اس قانون کی مخالفت میں اسے ‘‘سائنس سے متصادم’’ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ڈبے کے دودھ کو دوا کے بجائے فوڈ پراڈکٹ یا غذا تسلیم کیا جائے تاکہ اس کی نگرانی وفاقی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے بجائے کمزور صوبائی فوڈ اتھارٹیز کو دے دی جائے۔دوسری جانب صحت و غذائیت کے ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ پاکستان میں ماں کے دودھ سے محرومی کا رجحان صرف لاعلمی، سماجی دباؤ اور ناکافی سہولیات کا نتیجہ ہے جس کے سنگین نتائج بچوں کی صحت اور ملکی معیشت پر مرتب ہو رہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ زچگی کی چھٹی، کام کرنے والی ماؤں کے لیے سپورٹ سسٹم اور مناسب شعور اجاگر کر کے ماں کے دودھ پلانے کے رجحان کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ماہرین کے مطابق پاکستان میں ماں کا دودھ نہ پلانے کی وجہ سے ہر سال ملک کو تقریباً 2.8 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے، اس میں بیماریوں کا بوجھ، علاج کے اخراجات اور بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں کمی شامل ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی تقریباً 50 فیصد وجہ ناقص یا ناکافی دودھ پلانا ہے، خاص طور پر ڈبے کا دودھ اسہال اور نمونیا جیسی بیماریوں کو جنم دیتا ہے جو ہر سال لگ بھگ ایک لاکھ نوزائیدہ بچوں کی جان لے لیتا ہے۔فارمولا دودھ صرف نوزائیدہ ہی نہیں بلکہ بڑی عمر کے بچوں کو بھی دیا جا رہا ہے حالانکہ اس کی طبی ضرورت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ماں کا دودھ نہ صرف مکمل غذا ہے بلکہ اس میں وہ قدرتی اجزائ ، مدافعتی سیلز، اور خامرے (enzymes) موجود ہوتے ہیں جو کسی اور غذا میں نہیں پائے جاتے۔اس کے برعکس فارمولا دودھ میں وہ صلاحیت نہیں ہوتی اور اس کے استعمال میں صفائی کی کمی، غلط تیاری یا حد سے زیادہ خوراک جیسے مسائل بچوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ ماں کا دودھ ہر بچے کی انفرادی ضرورت کے مطابق وقت کے ساتھ بدلتا ہے، جب کہ فارمولا دودھ ایک جیسا ہوتا ہے، جو تمام بچوں کے لیے یکساں مؤثر نہیں ہوتا۔سندھ حکومت نے کہا کہ اس کا قانون فارمولا دودھ پر پابندی نہیں لگاتا بلکہ اس کے استعمال کو ضابطے کے تحت لاتا ہے تاکہ صرف حقیقی ضرورت کے تحت اور ڈاکٹر کے نسخے پر ہی استعمال ہو۔ اس قانون میں نگران بورڈ کی تشکیل، اشتہارات پر پابندی، صحت عملے سے تعلقات کی نگرانی اور خفیہ پروموشن روکنے کے واضح اصول شامل کیے گئے ہیں۔پاکستان جنوبی ایشیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں ایسا قانون موجود ہے مگر اس پر عملدرآمد کمزور ہے۔ وفاقی سطح پر بھی ایک بل سینیٹ سے منظور ہو چکا ہے جو عالمی اصولوں سے ہم آہنگ ہے مگر قومی اسمبلی میں فارمولا کمپنیوں کے دباؤ کے باعث تاخیر کا شکار ہے۔مزید قومی خبریں
-
محمد نواز شریف ، وزیراعظم شہباز شریف کے کزن میاں شاہد شفیع آبائی قبرستان میں سپرد خاک
-
ملک میں ڈبے کے دودھ کی حقیقی ضرورت صرف 2 ہزار بچوں کو! لیکن سالانہ اربوں خرچ کیے جاتے ہیں،ماہرین کا انکشاف
-
راولپنڈی ،پولیس نے جرگے کے حکم پر قتل کی گئی لڑکی کے کپڑے برآمد کرلیے
-
تمام معاشی اشارے درست سمت میں گامزن ہیں، نائب وزیراعظم
-
بنوں‘ سینٹرل جیل کے قیدی کی میٹرک میں تیسری پوزیشن
-
عمران خان کی علی امین کو وزارت اعلیٰ چھوڑنے کی ہدایت، ترجمان وزیر اعلیٰ کا بیان سامنے آگیا
-
پاکستان ایران فری ٹریڈ معاہدہ تیار ہو چکا، دو طرفہ تجارت میں اضافہ ہو گا، وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان کا پاکستان ایران بزنس فورم سے خطاب
-
پسند کی شادی پر بھائی نے کرغزستان سے ڈاکٹر بن کر آنے والی بہن کو قتل کردیا
-
ْٹیرف میں کمی سے پاکستان کو علاقائی ممالک پرمسابقتی برتری میں مدد ملے گی‘ بلال اظہر کیانی
-
چینی باشندے کی چوری شدہ رقم میں خورد برد کا الزام ثابت، ایس ایچ او سمیت 7 اہلکار معطل
-
تیل کی تلاش کے لئے پاکستانی کمپنی سائنرجی کو اور امریکی کمپنی وائٹل کے درمیان معاہدہ
-
پنجاب کو زہریلے صنعتی مادوں سے پاک کرنے کیلئے میگا آپریشن کا حکم
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.