مودی حکومت کی جانب سے کشمیری مصنفین کی 25کتابوں پر پابندی، ماہرین تعلیم اور صحافیوں کا شدید ردعمل

منگل 12 اگست 2025 17:35

سرینگر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 اگست2025ء) بھارتی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر سے متعلق25کتابوں پر پابندی پر ماہرین تعلیم، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے اختلاف رائے کو دبانے اور تاریخی حقائق کو مٹانے کی ایک بڑی سازش قراردیاہے۔ مودی حکومت نے اطہر ضیا، انورادھا بھسین اور حفصہ کنجوال سمیت خواتین مصنفین کی کتابوں پر بھی پابندی عائد کی ہے ۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق اطہر ضیا، انورادھا بھسین اور حفصہ کنجوال کی کتابوں میں اہم واقعات ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی ظالمانہ ریاستی پالیسیوں کوبے نقاب کر کے بھارتی حکومت کے سرکاری بیانیے کو چیلنج کیاگیاہے ۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے کسی حقیقی سکیورٹی خطرے کے بجائے آزادانہ خیالات سے حکومت کو لاحق خوف کی عکاسی ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

ان کتابوں میں جبری گمشدگی، خواتین کی مزاحمت، انسانی حقوق کی پامالیوں اور ریاستی بیانیے پر تنقید جیسے موضوعات شامل ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ پابندی آزادی اظہار کو دبانے اور کشمیر کی متبادل تاریخ کو مٹانے کی کوشش ہے۔اطہر ضیا نے کہا کہ مودی حکومت کایہ اقدام کشمیرکی تاریخ سے متعلق تحریروں کو منظر عام سے ہٹانے اور علمی دنیا میں تنازعہ کشمیرسے متعلق بیانیے کو تنہا کرنے کی ایک ساز ش ہے ۔

انورادھا بھسین نے بھارتی حکومت کے اس اقدام کو ایک "دھمکانے والا حربہ"قرار دیا جو کشمیر میں پہلے سے جاری میڈیا سنسرشپ اور سیاسی دبائو کا تسلسل ہے۔حفصہ کنجوال نے کہا کہ ان کی کتاب "کالونائزنگ کشمیر" میں ریاستی طاقت کے ذریعے تاریخی حقائق کو کنٹرول کرنے کی سازش کو بے نقاب کیاگیا ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ پابندی ایک ایسے وقت میں عائد کی گئی ہے جب بھارتی حکومت چنار بک فیسٹیول کے ذریعے کشمیری ثقافت کے سرکاری بیانیے کو فروغ دے رہی ہے، جسے ناقدین "ادارہ جاتی سنسرشپ" قرار دے رہے ہیں۔مصنفین نے خبردار کیا ہے کہ اگر تنقیدی آوازوں کومزید دبایا گیا تو آئندہ نسلوں کو تاریخ کا صرف حکومتی ورژن ہی دستیاب ہوگا۔