خیبرپختونخوا میں ایچ آئی وی کے کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ،صوبائی ایڈز کنٹرول پروگرام

منگل 12 اگست 2025 19:07

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 اگست2025ء) خیبرپختونخوا میں ایچ آئی وی کے کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا جن میں سب سے زیادہ کیسز پشاور سے 1724 رپورٹ ہو ئے ہیں ۔صوبائی ایڈز کنٹرول پروگرام کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جون 2025 تک خیبرپختونخوا اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد 8398تک پہنچ گئی ہے ۔

ڈیٹا خیبرپختونخوا ایڈز کنٹرول پروگرام کے سالانہ جائزہ سے حاصل کیا گیا ہے جس میں مریضوں کی جغرافیائی، سالانہ اور سنٹر وائز تفصیل شامل ہے۔ڈیٹا کے مطابق خیبرپختونخوا کے بندوبستی اضلاع میں ایچ آئی وی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 7027 ہے جن میں سب سے زیادہ کیسز پشاور سے 1724، بنوں سے 939، سوات سے 437، مردان سے 427 اور چارسدہ سے 391 رپورٹ ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

دوسری جانب ضم شدہ اضلاع سے 1371 کیسز رجسٹر کیے گئے ہیں، جن میں شمالی وزیرستان 354، ضلع خیبر 286، کرم 224، اور باجوڑ 218 کیسز کے ساتھ سرفہرست ہیں۔اگر گزشتہ سال 2024 کا موازنہ کیا جائے تو اس وقت تک خیبرپختونخوا اور ضم شدہ اضلاع میں ایچ آئی وی کے متاثرہ مریضوں کی تعداد مجموعی طور پر 8258 تھی جس میں خیبرپختونخوا کے بندوبستی اضلاع میں 6906 اور قبائلی اضلاع میں 1352 مریض رجسٹرڈ تھے جبکہ 2023میں یہ تعداد 1173نئے کیسز کے اضافے کے ساتھ ریکارڈ پر آئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق رواں سال کی صرف پہلی ششماہی میں ہی 741 نئے مریضوں کا اندراج ہو چکا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سال کے اختتام تک یہ تعداد ایک بار پھر ہزار سے تجاوز کر سکتی ہے۔مزید بتایا گیا ہے کہ صوبے بھر میں 13 مراکز میں ایچ آئی وی کے مریضوں کا علاج اور رجسٹریشن جاری ہے ان مراکز میں حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور 2723 مریضوں کے ساتھ سرفہرست ہے اس کے بعد لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور میں 2082 اور خلیفہ گل نواز ہسپتال بنوں میں 1097 کیسز رجسٹرڈ ہیں۔

باقی کیسز کوہاٹ، بٹ خیلہ، مردان، باجوڑ، میرعلی، پاراچنار اور دیگر مراکز سے رپورٹ ہوئے ہیں۔مجموعی طور پر 8398 متاثرہ افراد میں 6448 مرد، 2119 خواتین، 197 ٹرانس جینڈر اور 445 بچے شامل ہیں جو ایچ آئی وی سے متاثرہ کل آبادی کا حصہ ہیں۔طبی ماہرین اور پبلک ہیلتھ ادارے اس اضافے پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور اس کی بڑی وجوہات میں غیر محفوظ انتقال خون، نشہ آور انجیکشن کا غلط استعمال اور آگاہی کی کمی کو قرار دیا جا رہا ہے۔