اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 اگست 2025ء) پیر کو یہ معاملہ پارلیمنٹ کے اجلاس سے پہلے اپوزیشن اتحادی جماعتوں کی میٹنگ میں زیرِ بحث آیا۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن انڈیا بلاک چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار کے خلاف مواخذے کی تحریک پر غور کر رہی ہے۔
کل اتوار کو چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران الیکشن کمیشن آف انڈیا نے کانگریس رہنما راہول گاندھی کو بالواسطہ چیلنج کیا کہ وہ یا تو سات دن کے اندر ووٹر لسٹ میں بے ضابطگیوں کے اپنے الزامات پر حلف نامہ جمع کرائیں یا قوم سے معافی مانگیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے راہول گاندھی کا نام لیے بغیر کہا،’’وہ یا تو حلف نامہ دیں یا قوم سے معافی مانگیں۔ کوئی تیسرا راستہ نہیں۔
(جاری ہے)
اگر سات دن کے اندر حلف نامہ جمع نہیں کرایا گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ الزامات بے بنیاد ہیں۔‘‘
راہول گاندھی نے سات اگست کو دہلی میں ایک پریس کانفرنس کر کے بنگلورو کے ایک اسمبلی سیگمنٹ کے اعداد و شمار پیش کیے اور دعویٰ کیا کہ ووٹر لسٹ میں ہیرا پھیری کی جا رہی ہے تاکہ بی جے پی کو فائدہ پہنچے۔
پیر کو راہول گاندھی نے کہا کہ بہار میں ووٹر لسٹ کی خصوصی نظرثانی ’’ووٹ چوری کا نیا ہتھیار‘‘ ہے اور عہد کیا کہ وہ ’’ایک شخص، ایک ووٹ‘‘ کے اصول کا تحفظ کریں گے۔
انہوں نے ان افراد سے ملاقات کا ذکر کیا جنہوں نے گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں ووٹ ڈالا تھا مگر بہار میں جاری خصوصی نظرثانی مشق (ایس آئی آر) کے دوران ان کے نام ووٹر لسٹ سے حذف کر دیے گئے۔
راہول نے ان افراد کا بھی ذکر کیا جنہیں ووٹر لسٹ میں مردہ قرار دے دیا گیا ہے لیکن ان میں سے چند پچھلے ہفتے چائے کی دعوت پر ان سے ملاقات کے لیے دہلی آئے تھے۔
چیف الیکشن کمشنر کو برطرف کرنے کی کوشش کامیاب ہو گی؟
اپوزیشن کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار کے خلاف مواخذے کی تحریک کے کامیاب ہونے کے امکانات کم ہیں۔
بھارت میں چیف الیکشن کمشنر کو ہٹانے کا طریقہ کار وہی ہے جو سپریم کورٹ کے جج کے لیے ہے۔ ان کے خلاف تحریک پیش کرنے کے لیے کم از کم 50 ارکان کو تحریک پر دستخط کرنا لازمی ہے۔ اگرچہ انڈیا بلاک یہ دستخط جمع کرسکتا ہے، لیکن تحریک کے کامیاب ہونے کے امکانات کم ہیں کیونکہ اسے منظور کرنے کے لیے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت ضروری ہے، جو اپوزیشن انڈیا بلاک کے پاس نہیں ہے۔
لوک سبھا کے ایک اپوزیشن رکن نے کہا، ’’چاہے تحریک کامیاب ہو یا نہ ہو، ہمیں اپنا احتجاج درج کرانا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر سوالوں کے جواب دینے کے بجائے اپوزیشن پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔‘‘
راجیہ سبھا میں کانگریس کے رکن عمران پرتاپ گڑھی نے کہا، ’’ہم بہت جلد اس پر فیصلہ کریں گے۔‘‘
دریں اثنا اس معاملے پر آج بھی اپوزیشن کے احتجاج کے باعث پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں، لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی کارروائی ملتوی کرنا پڑی۔
بھارتی الیکشن کمیشن سخت دباؤ میں
یوں تو پچھلے چند برسوں کے دوران بھارتی الیکشن کمیشن پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کو فائدہ پہنچانے اور اپوزیشن جماعتوں کو پریشان کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں، لیکن ’’ووٹ چوری‘‘ کے الزامات عائد کیے جانے کے بعد سے وہ سخت دباؤ میں ہے۔ اس کی پریشانیاں اس لیے بھی بڑھ گئی ہیں کیونکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے اپنی وضاحت دینے کے لیے کل اتوار کو پریس کانفرنس کا انعقاد کیا۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے وہ مزید پھنس گیا۔
الیکشن کمیشن کی پریس کانفرنس میں موجود سینئر صحافی پرانجوئے گوہا ٹھاکرتا کا خیال ہے کہ اس وقت الیکشن کمیشن کی طرف سے دی گئی وضاحت سے یہ معاملہ ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔
انہوں نے کہا، ’’پریس کانفرنس میں کچھ سوالوں کے واضح جواب نہیں ملے۔
مثال کے طور پر، میں نے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ آپ نے مہاراشٹر میں 40 لاکھ نئے لوگوں کو شامل کیا؟ اس پر کمیشن نے کہا کہ اس وقت کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ میں نے ایک اور سوال کیا کہ ووٹر لسٹ میں لوگوں کی تعداد سے زیادہ نام کیوں تھے، لیکن مجھے جواب نہیں ملا۔‘‘گوہا نے کہا کہ اس طرح کے اور بھی بہت سے سوالات ہیں جن کے واضح جواب نہیں ملے، اس لیے اپوزیشن ’ووٹ چوری‘ کے معاملے سے ابھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔
دریں اثنا سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل میں الکیشن کمیشن نے ان 65 لاکھ لوگوں کے ناموں کی فہرست جاری کردی ہے، جن کے نام بہار میں خصوصی نظرثانی مشق کے تحت ابتدائی ووٹر لسٹ سے حذف کردیے گئے۔ الیکشن کمیشن نے قبل ازیں ایسا کرنے سے منع کردیا تھا۔
ادارت: افسر اعوان