Live Updates

عمران خان کو نصیحت پر مامور ایک باقاعدہ انڈسٹری قائم ہو رہی ہے، ایاز امیر کا تجزیہ

مدعا یہ ہے کہ وہ تھوڑا جھک جائیں، آنکھوں میں التجا کا تاثر لے آئیں، ایسے حضرات پہلے تو یہ بتائیں کہ قیدی کے مزاج میں جھکنے کا عنصر تھوڑا سا بھی موجود ہے؟ تجزیہ کار کا کالم

Sajid Ali ساجد علی بدھ 20 اگست 2025 14:16

عمران خان کو نصیحت پر مامور ایک باقاعدہ انڈسٹری قائم ہو رہی ہے، ایاز ..
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 اگست 2025ء ) معروف تجزیہ کار ایاز امیر کا کہنا ہے کہ عمران خان کو نصیحت پر مامور ایک باقاعدہ انڈسٹری قائم ہو رہی ہے، مدعا یہ ہے کہ وہ تھوڑا جھک جائیں، آنکھوں میں التجا کا تاثر لے آئیں۔ روزنامہ دنیا کیلئے اپنے کالم میں انہوں نے لکھا کہ مفاہمت اور عملیت پسندی خوبصورت الفاظ ہیں، اپنی جگہ حکمت اور دانش مندی کا نام ہیں لیکن بہت سے تناظر ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں بزدلی کے مترادف بن جاتے ہیں، معافی یا مفاہمت کی رائے دینے والے اپنی دانست میں بہت مخلص ہوں گے لیکن بھول جاتے ہیں کہ ہمارے جیسے حالات میں بات صرف معافی تک نہیں رہتی، کوئی جھکنے کو تیار ہو جائے تو جب تک ناک نہ رگڑے اگلوں کو چین نہیں آتا، بڑے ایوانوں کو ایک طرف رکھیے، تھانوں میں تھانیدار سے معافی مانگیں تو جب تک آپ پورا ذلیل نہ ہوں جان بخشی نہیں ہوتی۔

(جاری ہے)

ایاز امیر لکھتے ہیں کہ عمران خان کو نصیحت کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں اب تو نصیحت پر مامور ایک باقاعدہ انڈسٹری قائم ہو رہی ہے، معافی یا مفاہمت کی نصیحت کرنے والوں کا اصل مدعا یہ ہے کہ وہ تھوڑا جھک جائیں، آنکھوں میں التجا کا تاثر لے آئیں اور ایسا کریں تو اُن کیلئے آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں، ایسے حضرات پہلے تو یہ بتائیں کہ ''قیدی‘‘ کے مزاج میں جھکنے کا عنصر تھوڑا سا بھی موجود ہے؟ جب کسی انسان میں ایک چیز سرے سے موجود ہی نہیں تو پھر یہ سوال کس طرح بنتا ہے کہ اُسے اس طرف مائل کیا جائے؟۔

ان کا کہنا ہے دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر جھکنے پر اپنے آپ کو آمادہ کر بھی لیتا ہے تو کیا بات وہاں ختم ہو جائے گی؟ امیر تیمور کے سامنے بایزید نے ہتھیار ڈالے تو اُسے ایک پنجرے میں ڈال دیا گیا تاکہ پوری دنیا اُس کی حالت دیکھ سکے، بغداد پر ہلاکو خان کا قہر نازل ہوا تو خلیفہ مستعصم کی شکست اور بے بسی اُس کی تسکین کے لیے کافی نہ تھی، عباسیوں کے آخری خلیفہ کو قالین میں لپیٹا گیا اور اوپر سے منگول گھوڑے دوڑائے گئے جب تک کہ اُس کا آخری سانس ختم نہ ہوا، تجزیہ کار نے لکھا کہ ہمارے ماحول میں مفاہمت کا درس ابدی رسوائی کو دعوت دینے کے برابر ہے، عام آدمیوں کے المیے عام اور چھوٹی نوعیت کے ہوتے ہیں، تاریخی کردار ہوں تو اُن کے المیے بھی تاریخی نوعیت کے ہوتے ہیں۔

تجزیہ کار نے لکھا اس سے انکار نہیں کہ عمران خان سے غلطیاں ہوئیں، بڑے آدمیوں سے بڑی غلطیاں ہوتی ہیں، بھٹو سے بھی بہت غلطیاں ہوئیں اور اُن کا خمیازہ اُنہوں نے بھگتا، یہ اور بات ہے کہ ہمارے جیسے معاشروں میں انصاف اور احتساب کے پیمانے دہرے معیار کے ہوتے ہیں، عام سیاستدان بیشتر چیزوں سے بری الذمہ ہوتے ہیں مگریہاں تاریخ یہ رہی ہے کہ مملکتِ خداداد میں گناہِ عظیم مقبول لیڈر ہونا ہے، عوام نے قبولیت کا شرف بخشا تو اقتدار کے بوسیدہ ستونوں کو خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے، مقبولیت زیادہ ہو تو لرزہ طاری ہونے لگتا ہے، پھر ایسے مقبول عام لیڈر کے لیے کسی کوتاہی یا غلطی کی گنجائش نہیں رہتی۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات

متعلقہ عنوان :