خلاء میں زندگی کا خواب مشترکہ کوششوں سے حقیقت بننے کے قریب

یو این پیر 6 اکتوبر 2025 04:00

خلاء میں زندگی کا خواب مشترکہ کوششوں سے حقیقت بننے کے قریب

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 06 اکتوبر 2025ء) اقوام متحدہ کے زیراہتمام عالمی خلائی ہفتے کا آغاز ہو چکا ہے جس کا مقصد دنیا بھر کے لوگوں کو یہ جاننے کی ترغیب دینا ہے کہ زمین سے پرے زندگی کیسی ہو سکتی ہے اور خلائے بسیط کو ترقی کے لیے کیسے کام میں لایا جا سکتا ہے۔

'خلا میں زندگی' رواں سال اس ہفتے کا بنیادی موضوع ہے جو یہ اجاگر کرتا ہے کہ کیسے سائنسی اختراع، بین الاقوامی قانون اور عالمی تعاون خلا میں انسانوں کے ممکنہ مستقبل کو تشکیل دے رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے نئی ٹیکنالوجی کا کیا کردار ہے جو پہلے ہی زمین پر انسانی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں لا رہی ہے۔

Tweet URL

اقوام متحدہ نے اس ہفتے کا آغاز 1999 میں کیا تھا جو ہر سال 4 سے 10 اکتوبر تک منایا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ تواریخ دو اہم واقعات کی مناسبت سے رکھی گئی ہیں جن میں پہلے مصنوعی سیارے سپٹنک 1 کی خلا میں روانگی (1957) اور بیرونی خلا کے معاہدے کی منظوری (1967) شامل ہیں جو بین الاقوامی خلائی قانون کی بنیاد بھی ہے۔

آج، دنیا کے 90 سے زیادہ ممالک کے مصنوعی سیارے خلا میں موجود ہیں اور 2030 تک عالمی خلائی معیشت کے 730 ارب ڈالر سے تجاوز کرنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے خلائی امور (اوسا) کی ڈائریکٹر آرتی ہولا مائنی کا کہنا ہے کہ خلا کوئی دور کا خواب نہیں بلکہ یہ پہلے ہی ایک مشترکہ حقیقت بن چکا ہے۔ اگر تمام ممالک مل کر کام کریں تو یہ کرہ ارض کے بڑے مسائل کے حل میں مدد دے سکتا ہے۔

خلائی ٹیکنالوجی اور روزمرہ زندگی

رواں سال اس ہفتے کا بنیادی موضوع دنیا بھر کے لوگوں کو کرہ ارض سے پرے زندگی کے تصور کی دعوت دیتا ہے چاہے وہ چاند پر بننے والے مراکز ہوں یا زمینی مدار میں انجام دیے جانے والے طویل مدتی خلائی مشن ہوں۔

انسان کو خلا میں زندگی گزارنے کے قابل بنانے والی کئی طرح کی ٹیکنالوجی پہلے ہی زمین پر اس کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ شمسی پینل سے لے کر پانی صاف کرنے کے نظام تک، خلائی تحقیق سے جنم لینے والی تمام اختراعات نے صنعتوں اور گھریلو زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ سیٹلائٹ پر مبنی جی پی ایس، موسم کی نگرانی اور ٹیلی مواصلات جیسے نظام اب ناگزیر بن چکے ہیں۔

تاہم، خلا میں اب انسانی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔

گزشتہ سال تک زمین کے مدار میں 45 ہزار سے زیادہ انسانی ساختہ اشیا موجود تھیں جن میں فعال مصنوعی سیارے، ناکارہ خلائی جہاز اور ان کے پرزے شامل ہیں۔ آئندہ برسوں میں ہزاروں مزید مصنوعی سیارے خلا میں بھیجے جانے کا منصوبہ ہے جس سے ان میں ٹکراؤ کے خطرات اور خلائی ملبے میں اضافے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

Scott Kelly/NASA

سب کا چاند

'اوسا' رکن ممالک کو پائیدار خلائی سرگرمیوں کے اصول طے کرنے میں مدد دیتا ہے جن میں خلائی ملبے میں کمی لانا اور خلائی ٹریفک کا انتظام بھی شامل ہیں۔

یہ ادارہ زمینی مدار میں موجود اشیا کا ریکارڈ رکھتا اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تمام ممالک کے خلائی قوانین بین الاقوامی معاہدوں سے ہم آہنگ ہوں تاکہ خلا تک رسائی محفوظ اور سبھی کے لیے منصفانہ رہے۔

حالیہ عرصہ میں چاند کی سائنسی کھوج میں بھی اضافہ ہو گیا اور اس شعبے میں تیزی سے ترقی ہو رہی ہے۔2030 تک چاند کے حوالے سے 100 سے زیادہ مشن انجام دینے کی منصوبہ بندی ہو چکی ہے جو سائنسی تحقیق سے لے کر تجارتی منصوبوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔

'اوسا' کا اقدام 'سب کا چاند' ان تمام کوششوں کو مربوط کرتا ہے تاکہ چاند کی کھوج کا عمل محفوظ، پرامن اور سب کے لیے قابل رسائی رہے۔

آرتی ہولا مائنی کا کہنا ہے کہ یہ مشن علم اور ترقی کے بے پایاں مواقع فراہم کرتے ہیں لیکن ان کے لیے محتاط منصوبہ بندی اور بہتر انتظام بھی ضروری ہے۔

خلا برائے ترقی

خلا اب صرف امیر ممالک کا میدان عمل ہی نہیں رہا بلکہ ترقی پذیر اقوام کے لیے بھی ترقی کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ نے کینیا، نیپال اور گوئٹے مالا جیسے ممالک کو ان کا پہلا مصنوعی سیارہ بنانے میں مدد دی ہے اور حکومتوں کو قدرتی آفات کے حوالے سے اقدامات، موسمیاتی نگرانی، اور خوراک کے تحفظ جیسے شعبوں میں خلائی معلومات سے استفادے کے لیے تعاون فراہم کیا ہے۔

مصنوعی سیاروں سے لی گئی تصاویر ماحولیاتی تحفظ میں بھی مددگار ثابت ہو رہی ہیں جن کی بدولت رکن ممالک کو غیر قانونی ماہی گیری کی روک تھام، جنگلوں میں لگنے والی آگ کی نگرانی کرنے اور اس پر قابو پانے اور جنگلات کی کٹائی کو روکنے میں مدد ملتی ہے۔

NASA/Johnson

اجتماعی اقدام کی عظیم مثال

خلا کو پرامن اور تمام ممالک کے لیے قابل رسائی رکھنے کی غرض سے کثیرالملکی تعاون نہایت ضروری ہے اور خاص طور پر ایسے وقت میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب نجی کمپنیوں اور جغرافیائی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ہر رکن ملک کو خلائی انتظام میں اپنی رائے دینے کا حق ہونا چاہیے خواہ اس کے پاس خلائی صلاحیت ہو یا نہ ہو۔

امریکی خلائی تحقیقی ادارے (ناسا) کے خلا باز اور اقوام متحدہ کے 'چیمپئن فار سپیس' سکاٹ کیلی بین الاقوامی خلائی سٹیشن (آئی ایس ایس) کو انسانوں کے اجتماعی اقدام کی سب سے بڑی مثال قرار دیتے ہیں جہاں انہوں نے 520 دن گزارے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ خلائی سٹیشن بنانے والوں نے اسے زمین کے گرد 17,500 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گردش کرتے ہوئے اور منفی 270 سے 270 ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت میں تعمیر کیا۔ سٹیشن کے بعض حصے ایسے تھے جو زمین پر ایک دوسرے سے نہیں جوڑے جا سکتے تھے اور انہیں خلابازوں نے زمینی مدار میں لے جا کر انتہائی مشکل حالات میں جوڑا۔

اس طرح، کہا جا سکتا ہے کہ خلائی سٹیشن کی تعمیر انسان کا مشکل ترین کام تھا اور اگر یہ کام ہو سکتا ہے تو پھر باہم مل کر کچھ بھی کرنا ممکن ہے۔