
خلاء میں زندگی کا خواب مشترکہ کوششوں سے حقیقت بننے کے قریب
یو این
پیر 6 اکتوبر 2025
04:00

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 06 اکتوبر 2025ء) اقوام متحدہ کے زیراہتمام عالمی خلائی ہفتے کا آغاز ہو چکا ہے جس کا مقصد دنیا بھر کے لوگوں کو یہ جاننے کی ترغیب دینا ہے کہ زمین سے پرے زندگی کیسی ہو سکتی ہے اور خلائے بسیط کو ترقی کے لیے کیسے کام میں لایا جا سکتا ہے۔
'خلا میں زندگی' رواں سال اس ہفتے کا بنیادی موضوع ہے جو یہ اجاگر کرتا ہے کہ کیسے سائنسی اختراع، بین الاقوامی قانون اور عالمی تعاون خلا میں انسانوں کے ممکنہ مستقبل کو تشکیل دے رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے نئی ٹیکنالوجی کا کیا کردار ہے جو پہلے ہی زمین پر انسانی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں لا رہی ہے۔
اقوام متحدہ نے اس ہفتے کا آغاز 1999 میں کیا تھا جو ہر سال 4 سے 10 اکتوبر تک منایا جاتا ہے۔
(جاری ہے)
آج، دنیا کے 90 سے زیادہ ممالک کے مصنوعی سیارے خلا میں موجود ہیں اور 2030 تک عالمی خلائی معیشت کے 730 ارب ڈالر سے تجاوز کرنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے خلائی امور (اوسا) کی ڈائریکٹر آرتی ہولا مائنی کا کہنا ہے کہ خلا کوئی دور کا خواب نہیں بلکہ یہ پہلے ہی ایک مشترکہ حقیقت بن چکا ہے۔ اگر تمام ممالک مل کر کام کریں تو یہ کرہ ارض کے بڑے مسائل کے حل میں مدد دے سکتا ہے۔
خلائی ٹیکنالوجی اور روزمرہ زندگی
رواں سال اس ہفتے کا بنیادی موضوع دنیا بھر کے لوگوں کو کرہ ارض سے پرے زندگی کے تصور کی دعوت دیتا ہے چاہے وہ چاند پر بننے والے مراکز ہوں یا زمینی مدار میں انجام دیے جانے والے طویل مدتی خلائی مشن ہوں۔
انسان کو خلا میں زندگی گزارنے کے قابل بنانے والی کئی طرح کی ٹیکنالوجی پہلے ہی زمین پر اس کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ شمسی پینل سے لے کر پانی صاف کرنے کے نظام تک، خلائی تحقیق سے جنم لینے والی تمام اختراعات نے صنعتوں اور گھریلو زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ سیٹلائٹ پر مبنی جی پی ایس، موسم کی نگرانی اور ٹیلی مواصلات جیسے نظام اب ناگزیر بن چکے ہیں۔
تاہم، خلا میں اب انسانی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔
گزشتہ سال تک زمین کے مدار میں 45 ہزار سے زیادہ انسانی ساختہ اشیا موجود تھیں جن میں فعال مصنوعی سیارے، ناکارہ خلائی جہاز اور ان کے پرزے شامل ہیں۔ آئندہ برسوں میں ہزاروں مزید مصنوعی سیارے خلا میں بھیجے جانے کا منصوبہ ہے جس سے ان میں ٹکراؤ کے خطرات اور خلائی ملبے میں اضافے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

سب کا چاند
'اوسا' رکن ممالک کو پائیدار خلائی سرگرمیوں کے اصول طے کرنے میں مدد دیتا ہے جن میں خلائی ملبے میں کمی لانا اور خلائی ٹریفک کا انتظام بھی شامل ہیں۔
یہ ادارہ زمینی مدار میں موجود اشیا کا ریکارڈ رکھتا اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تمام ممالک کے خلائی قوانین بین الاقوامی معاہدوں سے ہم آہنگ ہوں تاکہ خلا تک رسائی محفوظ اور سبھی کے لیے منصفانہ رہے۔حالیہ عرصہ میں چاند کی سائنسی کھوج میں بھی اضافہ ہو گیا اور اس شعبے میں تیزی سے ترقی ہو رہی ہے۔2030 تک چاند کے حوالے سے 100 سے زیادہ مشن انجام دینے کی منصوبہ بندی ہو چکی ہے جو سائنسی تحقیق سے لے کر تجارتی منصوبوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔
'اوسا' کا اقدام 'سب کا چاند' ان تمام کوششوں کو مربوط کرتا ہے تاکہ چاند کی کھوج کا عمل محفوظ، پرامن اور سب کے لیے قابل رسائی رہے۔آرتی ہولا مائنی کا کہنا ہے کہ یہ مشن علم اور ترقی کے بے پایاں مواقع فراہم کرتے ہیں لیکن ان کے لیے محتاط منصوبہ بندی اور بہتر انتظام بھی ضروری ہے۔
خلا برائے ترقی
خلا اب صرف امیر ممالک کا میدان عمل ہی نہیں رہا بلکہ ترقی پذیر اقوام کے لیے بھی ترقی کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ نے کینیا، نیپال اور گوئٹے مالا جیسے ممالک کو ان کا پہلا مصنوعی سیارہ بنانے میں مدد دی ہے اور حکومتوں کو قدرتی آفات کے حوالے سے اقدامات، موسمیاتی نگرانی، اور خوراک کے تحفظ جیسے شعبوں میں خلائی معلومات سے استفادے کے لیے تعاون فراہم کیا ہے۔مصنوعی سیاروں سے لی گئی تصاویر ماحولیاتی تحفظ میں بھی مددگار ثابت ہو رہی ہیں جن کی بدولت رکن ممالک کو غیر قانونی ماہی گیری کی روک تھام، جنگلوں میں لگنے والی آگ کی نگرانی کرنے اور اس پر قابو پانے اور جنگلات کی کٹائی کو روکنے میں مدد ملتی ہے۔

اجتماعی اقدام کی عظیم مثال
خلا کو پرامن اور تمام ممالک کے لیے قابل رسائی رکھنے کی غرض سے کثیرالملکی تعاون نہایت ضروری ہے اور خاص طور پر ایسے وقت میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب نجی کمپنیوں اور جغرافیائی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ہر رکن ملک کو خلائی انتظام میں اپنی رائے دینے کا حق ہونا چاہیے خواہ اس کے پاس خلائی صلاحیت ہو یا نہ ہو۔
امریکی خلائی تحقیقی ادارے (ناسا) کے خلا باز اور اقوام متحدہ کے 'چیمپئن فار سپیس' سکاٹ کیلی بین الاقوامی خلائی سٹیشن (آئی ایس ایس) کو انسانوں کے اجتماعی اقدام کی سب سے بڑی مثال قرار دیتے ہیں جہاں انہوں نے 520 دن گزارے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ خلائی سٹیشن بنانے والوں نے اسے زمین کے گرد 17,500 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گردش کرتے ہوئے اور منفی 270 سے 270 ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت میں تعمیر کیا۔ سٹیشن کے بعض حصے ایسے تھے جو زمین پر ایک دوسرے سے نہیں جوڑے جا سکتے تھے اور انہیں خلابازوں نے زمینی مدار میں لے جا کر انتہائی مشکل حالات میں جوڑا۔
اس طرح، کہا جا سکتا ہے کہ خلائی سٹیشن کی تعمیر انسان کا مشکل ترین کام تھا اور اگر یہ کام ہو سکتا ہے تو پھر باہم مل کر کچھ بھی کرنا ممکن ہے۔
مزید اہم خبریں
-
خلاء میں زندگی کا خواب مشترکہ کوششوں سے حقیقت بننے کے قریب
-
امدادی کٹوتیاں: صومالیہ میں لاکھوں لوگوں کو بھوک کا سامنا، ڈبلیو ایف پی
-
پتا نہیں تم اتنی منفی سوچ کیوں رکھتے ہو؟ صدر ٹرمپ اسرائیلی وزیراعظم پر برس پڑے
-
اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچا تو حکمرانوں کا نان نفقہ بند کردینگے، حافظ نعیم
-
پنجاب میں اضافی اسکریننگ کی افواہیں بے بنیاد ہیں، پولیس کی وضاحت
-
پنجاب حکومت وفاق کو کمزور کر کے شہباز شریف سے انتقام لینا چاہتی ہے ، ندیم افضل چن
-
ڈیٹا شیئرنگ میں ناکامی ،انڈونیشیا نے ٹک ٹاک کا آپریٹنگ لائسنس معطل کردیا
-
پاکستان اور بھارت کی ویمن کرکٹ ٹیمیں بھی مصافحے سے گریزاں
-
نادرا نے انتقال کر جانے والے افراد کے شناختی کارڈ کی منسوخی کا عمل مزید آسان کردیا
-
کبھی پنجاب سے نفرت اور تعصب کی عینک اتار کر دیکھ لیجئے، عظمیٰ بخاری کا شرجیل میمن کو جواب
-
ملک میں شوگر، نزلہ، کھانسی، اینٹی بائیوٹک و دیگر عام استعمال کی ادویات پھر سے مہنگی
-
ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کی سپورٹ نہ کرے، شرجیل میمن
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.