جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب نے نیا خط لکھ دیا

ججز کمیٹی میں ہم نے 26ویں ترمیم پر فل کورٹ کا فیصلہ کیا، چیف جسٹس نے کہا بینچ تشکیل کا معاملہ آئینی بینچ اور آئینی کمیٹی کو بھیجا گیا، تاہم اس وقت آئینی بینچ اور آئینی کمیٹی کا وجود ہی نہیں تھا، خط کا متن

muhammad ali محمد علی جمعرات 21 اگست 2025 00:36

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب نے نیا خط لکھ دیا
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔20 اگست ۔2025 ) جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب نے نیا خط لکھ دیا، کہا ججز کمیٹی میں ہم نے 26ویں ترمیم پر فل کورٹ کا فیصلہ کیا، چیف جسٹس نے کہا بینچ تشکیل کا معاملہ آئینی بینچ اور آئینی کمیٹی کو بھیجا گیا، تاہم اس وقت آئینی بینچ اور آئینی کمیٹی کا وجود ہی نہیں تھا۔ تفصیلات کے گزشتہ دنوں چیف جسٹس یحیٰی آفریدی کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو لکھے گئے خطوط پبلک کیے گئے تھے، جن میں موقف اختیار کیا گیا کہ چیف جسٹس نے فل کورٹ کی تشکیل پر سپریم کورٹ کے ساتھی ججز سے مشاورت کی ، جس پر ججز کی اکثریت نے 26 ویں ترمیم کے بعد فل کورٹ کی تشکیل کی مخالفت کی۔

تاہم اب جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کی جانب سے لکھے گئے خطوط میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ قانون کے مطابق فل کورٹ کی تشکیل کیلئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے تمام ججز کی رائے کے پابند نہیں تھے، بلکہ فل کورٹ کی تشکیل ججز کمیٹی کے فیصلے کی بنیاد پر ہونا تھی۔

(جاری ہے)

ججز کمیٹی نے اکثریت کی بنیاد پر فل کورٹ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تھا، جب یہ فیصلہ کیا گیا، تب آئینی بینچ تشکیل ہی نہیں پایا تھا، لہذا ججز کمیٹی کے فیصلے پر عمل نہ کرکے قانون کی خلاف ورزی کی گئی۔

سپریم کورٹ کے میٹنگ منٹس پبلک کرنے کے معاملے پر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے اپنا موقف بیان کر دیا، خط میں کہا گیا کہ بطور کمیٹی ممبران ہم نے 26ویں ترمیم پر فل کورٹ کا فیصلہ کیا تھا، کمیٹی فیصلے کی خلاف ورزی میں کیس مقرر نہیں کیا گیا تھا۔ خط میں کہا گیا کہ 31 اکتوبر 2024 کو بطور کمیٹی ہم نے فل کورٹ کا فیصلہ کیا، کیس نہ لگنے پر 4 نومبر کو پھر خط لکھا، ہمارے فیصلے پر چیف جسٹس کے لکھے دونوں نوٹس ہمیں نہیں دیئے گئے۔

خط میں کہا گیا کہ چیف جسٹس نے اپنا نوٹ جوڈیشل کمیشن کی میٹنگ میں پڑھا، جوڈیشل کمیشن اس معاملے پر مجاز فورم نہیں تھا، منٹس میں کہا گیا بینچ تشکیل کا معاملہ آئینی بینچ اور آئینی کمیٹی کو بھیجا گیا، اس وقت آئینی بینچ اور آئینی کمیٹی کا وجود ہی نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ اجلاس کی کارروائیوں کو اب پبلک کیوں کیا گیا، کارروائی پبلک کرنے کی وضاحت ستمبر میں آئینی بینچ کے دوبارہ فنکشنل ہونے پر واضح ہوگی۔

ججوں نے کہا ہے کہ 31 اکتوبر اجلاس کے منٹس واضح کرتے ہیں کہ دونوں ججوں کا اجلاس ہوا تھا، فیصلے کے بعد فل کورٹ بنانا لازم تھا اور کوئی اس کو ختم نہیں کرسکتا، چیف جسٹس کے لکھے گئے دو خطوط میں اکثریتی فیصلے کی بے توقیری کی وجہ بتائی گئی ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ 31 اکتوبر 2024 کو جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے چیف جسٹس کو فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے ملاقات کی، ملاقات میں ہم نے کہا عوامی اعتماد کی بحالی کا حل اجتماعیت(فل کورٹ) ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ ملاقات میں چیف جسٹس فل کورٹ کی تشکیل پر ہچکچاہٹ کا شکار رہے اور اس معاملے پر ایک گھنٹے بعد دوبارہ ملاقات کا کہا، ایک گھنٹے بعد جسٹس منیب اخترکے چیمبر میں آئے اور تمام ججوں سے انفرادی طور پر ملاقات کا بتایا۔ دونوں ججوں نے کہا ہے کہ ہم نے چیف جسٹس کے انفرادی طور پر رائے لینے کو قانون اور پریکٹس کے برعکس قرار دیا کیونکہ ججوں سے انفرادی طور پر لی گئی رائے کی کوئی حیثیت نہیں اور چیف جسٹس کی رائے کے بعد قانونی طور پر کمیٹی اجلاس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔

خط میں کہا گیا کہ نوٹس کے باوجود چیف جسٹس کارروائی میں شامل نہیں ہوئے اور اکثریت کی بنیاد پر ہم نے 4 نومبر کو فل کورٹ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا اور فل کورٹ کے لیے رجسڑار کو بھی ہدایات جاری کردی گئیں۔ مزید بتایا گیا کہ کمیٹی اجلاس کے فیصلے پر چیف کا لکھا گیا نوٹ ہمیں نہیں دیا گیا، 4 نومبر کو خط کے باوجود بھی فل کورٹ تشکیل نہیں دی گئی، جوڈیشل یا انتظامی طور پر فل کورٹ کی تشکیل کے لیے ہم نے بہت کوشش کی، نتیجتاً ادارہ جاتی رسپانس نہ آسکا۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے ایک مرتبہ پھر 26 ویں ترمیم کے معاملے پر سپریم کورٹ کا فل کورٹ تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔