عظیم افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، فلسفی اور دانشور اشفاق احمد کی سالگرہ کل منائی گئی

جمعہ 22 اگست 2025 14:41

عظیم افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، فلسفی اور دانشور اشفاق احمد  کی سالگرہ ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 اگست2025ء) عظیم افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، فلسفی اور دانشور اشفاق احمد کی سالگرہ (کل) 22 اگست کو منائی گئی۔ ملک کے مشہور و معروف افسانہ نگار، ڈراما نویس، ناول نگار، مترجم اور براڈ کاسٹر اشفاق احمد خان بھارت کے شہر ہوشیار پور کے ایک چھوٹے سے گاؤں خان پور میں 22 اگست 1925 کو پیدا ہوئے۔ اشفاق احمد نے اپنی تعلیمی زندگی کا آغاز فیروز پورسے کیا اور فیروز پور کے ایک قصبہ مکستر سے 1943 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا جبکہ ایف ۔

اے فیروز پور کے کالج رام سکھ داس سے پاس کیا اور بی۔اے کا امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ آر ایس ڈی کالج سے پاس کیا۔ قیام پاکستان کے بعد اشفاق احمداپنے خاندان کے ہمراہ فیروز پور سے ہجرت کرکے پاکستان آ گئے۔

(جاری ہے)

پاکستان آنے کے بعد انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ ارد و میں داخلہ لیا اور اپنے وقت کے معروف اساتذہ پروفیسر سراج الدین، خواجہ منظور حسین ،آفتاب احمد اور فارسی کے استاد مقبول بیگ بدخشانی ان کے استاد رہے۔

اشفاق احمد نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے ، اٹلی کی روم یونیورسٹی اور گرے نوبلے یونیورسٹی فرانس سے اطالوی اور فرانسیسی زبان میں ڈپلومے کیے اور نیویارک یونیورسٹی سے براڈکاسٹنگ کی خصوصی تربیت بھی حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد اشفاق احمد نے ديال سنگھ کالج لاہور میں دو سال تک اردو کے لیکچرر کے طور پر کام کیا اور بعد میں روم یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہو گئے۔

وطن واپس آکر انھوں نے ادبی مجلہ داستان گو جاری کیا اور دو سال تک ہفت روزہ لیل و نہار کی ادارت بھی کی۔وہ 1967میں مرکزی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جو بعد میں اردو سائنس بورڈ میں تبدیل ہو گیا اور وہ 1989تک اس ادارے سے وابستہ رہے۔ اشفاق احمد وفاقی وزارت تعلیم کے مشیر بھی مقرر کیے گئے۔اشفاق احمد ان نامور ادیبوں میں شامل ہیں جو قیام پاکستان کے فورا بعد ادبی افق پر نمایاں ہوئے ۔

ان کی ادبی خدمات کی ایک طویل فہرست ہے ۔1953میں ان کا افسانہ گڈریا ان کی شہرت کا باعث بنا۔ انھوں نے اردو میں پنجابی الفاظ کا تخلیقی طور پر استعمال کیا اور ایک خوبصورت شگفتہ نثر ایجاد کی جو ان کا وصف سمجھی جاتی ہے۔ اردو ادب میں کہانی لکھنے کے فن پر اشفاق احمد کو جتنا عبور تھا وہ کم لوگوں کے حصہ میں آیا۔60 کی دہائی میں اشفاق احمد نے دھوپ اور سائے کے نام سے ایک نئی طرح کی فیچر فلم بنائی جس کے گیت مشہور شاعر منیر نیازی نے لکھے اور طفیل نیازی نے اس کی موسیقی ترتیب دی تھی جبکہ اداکار قوی خان نے پہلی مرتبہ بطور ہیرو کردار ادا کیا۔

70 کی دہائی کے شروع میں اشفاق احمد نے معاشرتی اور رومانی موضوعات پر ایک محبت سو افسانے کے نام سے ایک ڈراما سیریز لکھی اور 80 کی دہائی میں ان کی سیریز توتا کہانی اور تیرے من چلے کا سودا نشر ہوئی۔ اشفاق احمد اپنے ڈراموں میں پلاٹ سے زیادہ مکالمے پر زور دیتے تھے اور ان کے کردار طویل گفتگو کرتے تھے۔کچھ عرصہ سے وہ پاکستان ٹیلی وژن پر زاویہ کے نام سے ایک پروگرام کرتے رہے جس میں وہ اپنے مخصوص انداز میں قصے اور کہانیاں سناتے تھے۔

اشفاق احمد کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں ستارہ امتیاز اور تمغہ حسن کارکردگی سمیت متعدد قومی و بین الاقوامی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ اشفاق احمد 7 ستمبر 2004کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے اور جی بلاک ماڈل ٹاؤن لاہور کے قبرستان میں مدفون ہوئے ۔ اشفاق احمد کی سالگرہ کے موقع پر علمی و ادبی حلقوں اور شو بز انڈسٹری سمیت ان کے چاہنے والوں نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔