دہلی ہائی کورٹ نے عمر خالد، شرجیل امام اور دیگر 7افراد کی ضمانت کی درخواستیں مستردکردیں

منگل 2 ستمبر 2025 22:10

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 02 ستمبر2025ء) ہائی کورٹ نے دہلی فسادات 2020 کے نام نہاد سازشی کیس کے ملزمان عمر خالد، شرجیل امام اور دیگرسات افراد کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کر دیں۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق ملازمین کو جنوری سے ستمبر 2020کے درمیان گرفتار کیا گیا تھا۔یہ فیصلہ جسٹس نوین چاولہ اور جسٹس شالندر کور کی بنچ نے آج 2ستمبر کو سنایا۔

دیگر ملزمان میں اطہر خان، خالد سیفی، محمد سلیم خان، شفا ء الرحمان، میران حیدر، گلفشاں فاطمہ اور شاداب احمد شامل ہیں۔ ان تمام ملزمان نے نچلی عدالت کے ان احکامات کو چیلنج کیا تھا جن میں انہیں ضمانت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔عمر خالد کے وکیل سینئر ایڈووکیٹ تردیپ پیس نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ محض وٹس ایپ گروپس میں ہونا،لیکن کوئی پیغام نہ بھیجنا، کسی جرم کے دائرے میں نہیں آتا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ خالد سے نہ تو کوئی رقم برآمد ہوئی ہے اور نہ ہی کچھ اور پراسیکیوشن جس مبینہ خفیہ میٹنگ کے بارے میں بات کر رہا ہے،وہ بالکل بھی خفیہ نہیں تھی، جیسا کہ پولیس دعوی کر رہی ہے۔خالد سیفی کی وکیل ربیکا جان نے کہاکہ کیا عام پیغامات کی بنیاد پر یا استغاثہ کی کہانیاں گھڑنے کی کوششوں کی بنیاد پریو اے پی اے لگایا جا سکتا ہے؟ کیا یہ ضمانت سے انکار، یا یو اے پی اے کے تحت مقدمہ چلانے کی بنیاد ہو سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ سیفی کو ضمانت دی جانی چاہیے کیونکہ تین شریک ملزمان کو جون 2021میں ضمانت مل چکی ہے۔

شرجیل امام نے کہا کہ ان کا باقی شریک ملزمان سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی سازش یا سازشی بیٹھکوں کا حصہ رہے ہیں۔ ان کے وکیل طالب مصطفی نے عدالت کو بتایا کہ دہلی پولیس کی طرف سے لگائے گئے الزامات کے مطابق امام کا کردار 23جنوری 2020تک محدود ہے۔ دہلی پولیس نے امام کے خلاف جو سب سے بڑاثبوت پیش کیا ہے وہ ان کی بہار میں کی گئی تقریر ہے۔تاہم عدالت نے حکومت کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے درخواستیں مسترد کردیں۔واضح رہے دہلی فسادات میں 50سے زائد افراد مارے گئے تھے جن میں زیادہ ترمسلمان تھے اور مقدمات بھی مسلمانوں کے خلاف ہی قائم کئے گئے۔ پانچ سال گزرجانے کے باوجود ان کی ضمانتیں نہیں ہورہیں اوریہ لوگ کوئی جرم ثابت ہوئے بغیر ہی سزا کاٹ رہے ہیں۔