لیگل ایڈ سوسائٹی، اقوامِ متحدہ پاپولیشن فنڈ کا اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ایک اعلی سطح مشاورتی اجلاس

جمعرات 4 ستمبر 2025 19:30

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 ستمبر2025ء) لیگل ایڈ سوسائٹی، اقوامِ متحدہ پاپولیشن فنڈ (UNFPA)، اور نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن (NCSW) نے حکومت کے نمائندوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، سول سوسائٹی اور مقامی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ایک اعلی سطحی مشاورتی اجلاس منعقد کیا تاکہ پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کے مسئلے کو حل کیا جا سکے۔

تقریب کا آغاز سلمی کے اسکریننگ سے ہوا، جو UNFPA کی ایک مثر مختصر فلم ہے جس میں کم عمری کی شادی کے تباہ کن صحت پر اثرات کو اجاگر کیا گیا۔ این سی ایس ڈبلیو کی چیئرپرسن محترمہ عمہ لیلی اظہر نے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہا:سندھ کے قانون سازی میں پہل کرنے کے باوجود عملدرآمد میں خلا موجود ہے۔ این سی ایس ڈبلیو پائیدار وکالت، حکومتی ہم آہنگی اور عدالتی شمولیت کے ذریعے 18 سال سے کم عمر کی شادیوں پر ملک گیر پابندی کے لیے پرعزم ہے۔

(جاری ہے)

مزید گفتگو کرتے ہوئے، محترمہ صالحہ رمای، ٹیکنیکل اسپیشلسٹ برائے صنفی بنیاد پر تشدد (UNFPA) نے کہا:کم عمری کی شادی لڑکیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتی ہے، انہیں شدید صحت کے مسائل، زچگی کی پیچیدگیوں، جبری تبدیلی مذہب اور حتی کہ اسمگلنگ تک سے دوچار کرتی ہے۔کثیر الجہتی اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل پینل ڈسکشن میں سندھ کے حفاظتی اور ردعمل کے نظام میں اہم خامیوں کو اجاگر کیا گیا۔

اس موقع پر ڈی آئی جی ٹریننگ سندھ، فیض اللہ کوریجو نے کہا:ہمیں زیادہ خواتین ایس ایچ اوز اور خصوصی تربیت یافتہ عملے کی ضرورت ہے تاکہ کم عمری کی شادیوں کے کیسز کو موثر طریقے سے نمٹا جا سکے۔مزید برآں، ڈپٹی ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ راحیلہ رحیم نے کہا:نکاح رجسٹریشن میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ ڈیجیٹلائزیشن، لازمی شناختی کارڈ کی اندراجی شرط، اور نکاح رجسٹرارز و یونین کونسلز کی تربیت سے رجسٹریشن کے وقت کم عمری کی شادیوں کو روکا جا سکتا ہے۔

حکومتی اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، یو این ایف پی اے کے پروگرام اینالسٹ جناب سرتاج عباسی نے کہا:حکومت کی شمولیت اور ملکیت بہت ضروری ہے تاکہ پائیداری کو یقینی بنایا جا سکے اور ان ترجیحی شعبوں میں حقیقی بہتری لائی جا سکے جن کی آج نشاندہی کی گئی ہے۔سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے، ڈائریکٹر آپریشنز محترمہ امبرین زہرہ نے کہا:ہم کیسز کی دستاویز سازی کر رہے ہیں اور عدالتوں کے ساتھ ریفرلز پر کام کر رہے ہیں، مگر محدود وسائل اور آگاہی کی کمی ہمیں پیچھے رکھ رہی ہے۔

اس پہ توجہ ہمارے کردار کو مضبوط بنائے گی!کھلی بحث میں سول سوسائٹی، قانونی ماہرین، انسانی حقوق کے کارکنان اور میڈیا نے جعلی دستاویزات، کمزور آگاہی اور اداروں میں صنفی حساسیت کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا۔اپنے کلیدی خطاب میں، وزیر برائے خواتین کی ترقی، محترمہ شاہینہ شیر علی نے زور دیا:ویمن ڈویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ کم عمری کی شادی کی روک تھام اور آگاہی کے لیے ہمیشہ ایک مضبوط وکیل رہا ہے اور رہے گا۔

ہم نے ذاتی طور پر کم عمری کی شادی، بدسلوکی اور اغوا کے کیسز اٹھائے ہیں، اور ہم بخوبی جانتے ہیں کہ اس جدوجہد میں متاثرہ افراد کو کن مشکلات کا سامنا ہے۔کم عمری کی شادی کی روک تھام ایکٹ (CMRA) پر مثر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے، کمیونٹی میں آگاہی بڑھائی جائے، مذہبی رہنماں کو شامل کیا جائے، اور حکومت و سول سوسائٹی کے درمیان مربوط اقدامات کیے جائیں۔