تنازعہ کشمیر حل نہ ہونے کے باعث مقبوضہ جموں وکشمیرمیں تعلیم کا شعبہ بری طرح متاثر

پیر 8 ستمبر 2025 14:27

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 ستمبر2025ء)آج جب دنیا بھر میں خواندگی کا عالمی دن منا یا جارہا ہے، مقبوضہ جموں وکشمیر میں بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک اہم حق یعنی تعلیم بھاری فوجی جمائو اور تنازعہ کشمیرحل نہ ہونے کی وجہ سے بری طرح متاثر ہورہا ہے۔کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے عالمی یوم خواندگی کے موقع پر جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیری طلبا ء تعلیم پر کیسے توجہ مرکوز کرسکتے ہیں جب وہ روزانہ کی بنیاد پر محاصرے اور تلاشی کی کارروائیاں، گھروں پر چھاپے اور سڑکوں اور سکولوں کے باہربندوقوں سے لیس بھاری تعداد میں فوجیوں کو کھڑا ا ور نوجوانوں کو گرفتارہوتے دیکھ رہے ہیں ۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوجیوں اور پیراملٹری فورسز کی بھاری تعداد میں موجودگی تعلیم کو بری طرح متاثر کر رہی ہے جو لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک اہم حق ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 05اگست 2019کو مودی حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد علاقے کی صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔

رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیاکہ بی جے پی حکومت نے پورے مقبوضہ جموں وکشمیر میں فلاح عام ٹرسٹ کے زیر انتظام سینکڑوں سکولوں پر پابندی لگا دی ہے جس سے ہزاروں طلباء معیاری تعلیم سے محروم ہوگئے ہیں۔ 24اگست 2025کو جموں و کشمیر سروسز سلیکشن بورڈ (JKSSB)کی جانب سے جونیئر انجینئر(الیکٹریکل)کے امتحان کے انعقاد کے بعد پیپر لیک ہونے کا واقعہ سامنے آیا جس سے امیدواروں اور سیاسی رہنمائوں میں غم و غصہ پھیل گیا۔

کئی صارفین نے سوشل میڈیا خاص طور پر ایکس پر ویڈیوز شیئرکی ہیں جن میں مبینہ طور پر امتحان میںامیدواروں کو ایک ساتھ مل کر سوالات حل کرتے ہوئے دکھایا ہے، کچھ موبائل فون کا بھی استعمال کررہے ہیں۔ان ویڈیو کلپس نے جو اب بڑے پیمانے پر گردش کر رہی ہیں، بدانتظامی ، بے ضابطگیوں اور پیپر لیک ہونے کے الزامات کو مزیدتقویت دی ہے۔2020سے 2025تک مقبوضہ علاقے میں تقریبا ہر بڑا امتحان لیک، بدانتظامی یا طویل قانونی رکاوٹوں پر تنازعات کا شکار رہا ہے جس سے ملازمت کے متلاشی ہزاروں افراد مایوسی کا شکارہیں۔

طلباء کا کہنا ہے کہ امتحان شروع ہونے سے قبل ہی سوشل میڈیا پر سوالیہ پرچے دستیاب تھے۔ایک طالب علم ثاقب جان نے کہا کہ پہلے ہی بے روزگاری کی بلند ترین شرح کے بوجھ تلے دبے خطے میں اس طرح کے سکینڈلز نوجوانوں کی مایوسی کو مزید گہرا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بار بار پیپر لیک اور بے ضابطگیاں دیکھی ہیں لیکن سب سے اوپر والوں کو مکمل استثنیٰ حاصل ہے۔

احتساب دفن ہو چکا ہے اور طلباء کو نقصان اٹھانے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے جبکہ نظام سڑ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ قصورواروں کا محاسبہ کیاجائے۔ اس کے بغیر نظام میں تبدیلی نہیں آسکتی۔نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمنٹ آغا روح اللہ مہدی نے کہا کہ جموں و کشمیر کے دور دراز علاقوں سے خواہشمند امیدوار امیدلگاکرآتے ہیں اورسروسز سلیکشن بورڈ کی ناقص نظام کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔

یہ ایک غیر منتخب اور غیر ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کے زیر نگرانی تباہ شدہ نظام کا براہ راست نتیجہ ہے۔پی ڈی پی لیڈر وحید پرہ نے کہا کہ کتابوں پر پابندی اور اسکولوں کو تالے لگانے کے بعدقابض انتظامیہ کی طرف سے امتحانی پرچوں کی فروخت جموں و کشمیر کے نوجوانوں کے لیے ایک اور دھچکا ہے۔اگست کے امتحان میں شامل ہونے والے امیدواروں نے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھرتی کے عمل میں اعتماد بحال کرنے کے لیے غیر جانبدارانہ تحقیقات اور طویل مدتی اصلاحات کا مطالبہ کیا۔

بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقے میں مسلسل خوف اور مظالم نے بچوں کی تعلیم کوبری طرح متاثر کیا ہے۔علاقے میں بی جے پی کی نئی تعلیمی پالیسی آر ایس ایس کے نظریے کی عکاسی کرتی ہے، جب کہ کشمیری طلباء کو اسکولوں میں ہندوتوا کے گانے گانے اور ہندوشخصیات کے بارے میں جاننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ بی جے پی حکومت نے تعلیم کے حق سمیت کشمیری عوام کا ہر حق چھین لیا ہے۔رپورٹ میں عالمی برادری پر زور دیا گیا کہ وہ کشمیری طلباء کی حالت زارپر توجہ دے اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کو حل کرنے میں مدد کرے۔