پاکستان: وسیم کی کہانی جسے تعلیمی غربت کے اندھیرے میں ملی روشنی

یو این بدھ 10 ستمبر 2025 21:45

پاکستان: وسیم کی کہانی جسے تعلیمی غربت کے اندھیرے میں ملی روشنی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 10 ستمبر 2025ء) پنجاب کے ضلع لودھراں کے ایک چھوٹے سے گاؤں سردار والا میں سات سالہ محمد وسیم اپنی صبحیں کھیتوں میں اور دن جھلستی دھوپ تلے اپنے ننھے ہاتھوں سے گھاس پھوس اکھاڑتے ہوئےگزارتا تھا۔ اس کی ماں، پھوپھی اور چچی بھی اس کے ساتھ کام کرتیں کیونکہ اس کے والد کی رکشہ چلانے سے حاصل ہونے والی آمدنی سے گھر کا گزارا مشکل تھا۔

کام کے دوران وسیم اکثر گاؤں کے دوسرے بچوں کو رنگ برنگے بستے اور پینسلوں کی تھیلی اٹھائے ہوئے خوشی خوشی سکول جاتے دیکھتا۔ اگرچہ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ ان کلاسوں میں کیا پڑھایا جاتا ہے، لیکن ان کے چہروں کی مسکراہٹ دیکھ کر اس کا دل چاہتا تھا کہ کاش وہ بھی ان میں شامل ہوتا۔

بدقسمتی سے اس کے والدین اسے سکول بھیجنے کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔

(جاری ہے)

کتابوں اور یونیفارم کے لیے پیسے نہیں تھے، اور نہ ہی انہیں یہ یقین تھا کہ تعلیم کچھ بدل سکتی ہے۔ یوں وسیم کے خواب ادھورے چلے آ رہے تھے۔

لیکن عظمیٰ نامی ایک استاد کےاس کےگھر آنے سے سب بدل گیا۔

© UNICEF/Fahad Ahmed
سکول میں وسیم کو نئے دوست بنانے کا موقع بھی مل رہا ہے۔

تعلیم کا اعتماد

اُس نے صرف دروازہ نہیں ہی کھٹکھٹایا بلکہ وسیم کے لیے ایک نئے مستقبل کا دروازہ کھول دیا۔ عظمیٰ اور ان کی ساتھی استاتذہ نے وسیم کے والدین کو سمجھایا کہ تعلیم کس طرح وسیم کے لیے بہتر زندگی کے مواقع پیدا کر سکتی ہے، اور ان کی مخلصانہ گفتگو وسیم کے والدین کے دلوں پر اثر کر گئی۔

اب وسیم جب ہر صبح جلدی اٹھتا ہے تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے۔

پروگرام کی جانب سے دی گئی اپنی کتابیں اور رنگین پنسلیں ہاتھ میں تھامے وہ خوشی خوشی سکول کا رخ کرتا ہے۔ بنیادی ریاضی کے ساتھ ساتھ وہ اردو اور انگریزی پڑھنا اور لکھنا سیکھ رہا ہے۔ وہ نئے دوستوں سے مل رہا ہے اور اس میں خود اعتمادی بڑھ رہی ہے۔

پنجاب بھر میں گلوبل پارٹنرشپ فار ایجوکیشن (جی پی ای) کے تعاون سے یونیسیف کے زیرِ انتظام "تعلیم پروگرام" جاری ہے، جو ان بچوں کی مدد کرتا ہے جو کبھی سکول نہیں گئے یا تعلیم میں کافی پیچھے رہ گئے ہیں۔

© UNICEF/Fahad Ahmed
سکول میں کھیل کود کے مواقع بھی ملتے ہیں۔

خوابوں کی تعبیر

12 اضلاع میں 14 ہزار سے زیادہ سرگرمیوں پر مبنی تعلیمی کیمپ لگائے گئے ہیں۔ جو تقریباً 4 لاکھ 45 ہزار بچوں کو دوبارہ پڑھنے اور کلاس میں اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنے کا موقع دے رہے ہیں، ان بچوں میں نصف تعداد لڑکیوں کی ہے۔ ان میں سے تقریباً 95 ہزار بچے کبھی سکول نہیں گئے تھے یا سکول چھوڑ چکے تھے، جو اب پہلی بار یا دوبارہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

ایسے پروگراموں کی بدولت ناممکن خواب شرمندہ تعبیر ہو رہے ہیں۔

وسیم اب کھیتوں میں کام نہیں کرتا۔ سکول سے واپس آ کر وہ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتا ہے اور اپنی چھوٹی بہن اور خاندان کے دوسرے بچوں کو وہ سب کچھ سکھاتا ہے جو وہ سکول میں سیکھتا ہے۔

پنجاب کے کئی سکولوں میں بچے تو موجود ہیں لیکن حقیقت میں وہ کچھ سیکھ نہیں رہے۔ عالمی بینک کے "لرننگ پاورٹی" یعنی علمی غربت جائزے کے مطابق پنجاب میں داخلہ لینے والے 65 فیصد بچے دس برس کی عمر تک سادہ متن بھی پڑھ یا سمجھ نہیں پاتے۔

© UNICEF/Fahad Ahmed
وسیم سکول سے سیکھے سبق اپنی چھوٹی بہن کو پڑھا رہا ہے۔

تعلیمی غربت کا حل

چھوٹے بچوں کے لیے یہ مشکل اس سے بھی پہلے شروع ہو جاتی ہے، کیونکہ تین سے پانچ سال کی عمر کے صرف 17 فیصد بچے ہی ابتدائے بچپن کی تعلیم حاصل کر پاتے ہیں۔ یہ اعداد وشمار تعلیمی غربت کے بحران کی نشاندہی کرتے ہیں۔ تاہم صورتحال اب بدل رہی ہے۔

یہ کامیابی کی محض ایک کہانی نہیں بلکہ اس بات کی تصدیق ہے کہ تعلیم میں سرمایہ کاری سے کیا کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔

گلوبل پارٹنرشپ فار ایجوکیشن کی مدد سے موسم گرما میں منعقد ہونے والے بنیادی تعلیمی کیمپ (ایف ایل این) وسیم جیسے بچوں کو خواب دیکھنے، آگے بڑھنے اور بہتر مستقبل بنانے کا ایک حقیقی موقع فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن اب بھی وسیم کی طرح بہت سے بچے ان کھیتوں، گلیوں اور گھروں میں انتظار کر رہے ہیں جہاں کتابوں تک رسائی ممکن نہیں۔

مسلسل تعاون سے ان بچوں تک بھی پہنچا جا سکتا ہے۔ ایف ایل این کیمپوں کے ذریعے صرف "ایک پنسل، ایک کتاب اور ایک خواب کے ساتھ" انہیں دوبارہ تعلیم کے سفر میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

وسیم کے تعلیمی سفر بارے رپورٹ پہلے انگریزی میں شائع ہوئی تھی۔