یو این امن کاری تنازعات میں پھنسے لوگوں کے تحفظ کا نام، ژاں پیئر لاکوا

یو این بدھ 10 ستمبر 2025 20:30

یو این امن کاری تنازعات میں پھنسے لوگوں کے تحفظ کا نام، ژاں پیئر لاکوا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 10 ستمبر 2025ء) دنیا بھر میں جتنی بڑی تعداد میں مسلح تنازعات جاری ہیں اس کی گزشتہ دہائیوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایسے حالات میں امن کاری کی ضرورت بھی پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے۔ آج سلامتی کونسل کے اجلاس میں یہی موضوع زیربحث آیا جس میں اقوام متحدہ کے زیراہتمام امن کارروائیوں کے مستقبل پر بات چیت کی گئی۔

امن کارروائیوں کے لیے اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل ژاں پیئر لاکوا نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امن کاری کوئی تعیش نہیں بلکہ اس سے لاکھوں لوگوں کا تحفظ اور مستقبل وابستہ ہوتا ہے۔

Tweet URL

تاہم، انہوں نے کہا کہ آج مسائل کے پائیدار سیاسی حل کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے جس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ سال دنیا کو 61 مسلح تنازعات کا سامنا رہا۔

(جاری ہے)

بہت سے تنازعات طوالت اختیار کر گئے ہیں جن میں مزید کردار شامل ہو چکے ہیں اور کئی حالات میں بعض ممالک اپنے آلہ کاروں کے ذریعے ان میں شریک ہیں۔ اس طرح بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل آسان نہیں ہوتا۔ مستقبل میں ایسے لوگوں کی تعداد مزید بڑھ سکتی ہے جنہیں تحفظ کی ضرورت ہو گی۔

انڈر سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ایسی صورتحال میں امن کاری کی ضرورت بھی بڑھ جائے گی اور امن کاروں کے لیے حالات مزید غیریقینی ہو جائیں گے اور مکمل کامیابی کا حصول آسان نہیں رہےگا۔

واضح اور ترجیحی ذمہ داریاں

اقوامِ متحدہ اپنی 80 سالہ تاریخ میں بہت سی جگہوں پر بہت سے کثیرالجہتی امن مشن تعینات کر چکا ہے جن میں پولیس، فوجی اور غیرفوجی عملہ شامل ہوتا ہے۔ خصوصی سیاسی مشن تنازعات کی روک تھام اور امن کے قیام و فروغ میں حصہ لیتے ہیں اور رکن ممالک میں انتخابی عمل میں معاونت مہیا کرتے ہیں۔

اس وقت 115 ممالک سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے 60 ہزار سے زیادہ مردوخواتین امن کار دنیا بھر میں 11 امن مشن انجام دے رہے ہیں۔

ژاں پیئر لاکوا نے کہا کہ مستقبل میں اقوام متحدہ کو ایسی امن کاری کرنا ہو گی جو حالات اور زمینی حقائق کے مطابق ہو، اس میں مضبوط سیاسی حکمت عملی سے رہنمائی حاصل کی جائے اور ناصرف اپنے بلکہ شراکت داروں کے وسائل، صلاحیتوں اور مہارت سے بھی فائدہ اٹھایا جائے

امن مشن کے لیے سب سے پہلے واضح اور ترجیحی مینڈیٹ ہونا ضروری ہے جو میزبان ممالک، فوج اور پولیس فراہم کرنے والے ممالک، علاقائی فریقین، مقامی لوگوں اور دیگر متعلقہ فریقین کی نمائندگی بھی کرے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت سے بھی فائدہ لینا ہو گا۔ تنازعات کے سیاسی حل کی کوششیں بدستور ترجیح ہونی چاہئیں۔ انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ اور خواتین، امن و سلامتی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا بھی اہم ہے۔ علاوہ ازیں، امن کارروائیوں کے دوران جنسی استحصال اور بدسلوکی کے خلاف سیکرٹری جنرل کی عدم برداشت کی پالیسی کو بھی برقرار رکھنا ہو گا۔

مسائل کے سیاسی حل کی ضرورت

انہوں نے کہا کہ امن مشن مستقل طور پر جاری رہنے کے لیے نہیں ہوتے۔ اسی لیے مسائل کے پائیدار سیاسی حل کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ کسی جگہ امن مشن کی ذمہ داری مکمل ہونے کے بعد تنازع دوبارہ نہ ابھرے اور اس کے لیے کونسل کی مضبوط، متحد اور مسلسل حمایت درکار ہے جس کا اظہار واضح، ترجیحی مینڈیٹ کی منظوری، فعال سیاسی شرکت اور تعاون کے ذریعے ہونا چاہیے۔

سیاسی امور اور قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل روزمیری ڈی کارلو نے کہا کہ اب تنازعات زیادہ بین الاقوامی نوعیت اختیار کر چکے ہیں جن پر علاقائی یا عالمی طاقتوں کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ دوسری جانب، غیر ریاستی مسلح گروہوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جن میں بہت سے ایسے ہیں جو اپنے مقاصد کے لیے دہشت گردی سے کام لے رہے ہیں۔

مصنوعی ذہانت سے لے کر ڈرون تک، نئی ٹیکنالوجی کے بطور ہتھیار استعمال سے نہ صرف تشدد کی ہلاکت خیزی میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اس کے پھیلاؤ کے خدشات بھی بڑھ رہے ہیں۔

کامیاب امن کاری کے لیے تین ترجیحات

انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں امن کاری کو کامیاب بنانے کے لیے تین ترجیحات اہم ہیں جن میں مشن کے ابتدائی اہداف کو حقیقت پسندانہ اور محدود رکھنا، امن مشن اور اقوام متحدہ کی ملکی ٹیموں کے درمیان ہم آہنگی کو بہتر بنانا اور ایسی ذمہ داریوں کو ختم کرنا شامل ہے جن میں ہر مسئلے پر ایک ہی حل لاگو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی حمایت کا فقدان کسی مشن کی ناکامی یا اس پر کمزور عملدرآمد کی ایک بڑی وجہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر تنازع کے بنیادی سیاسی سوالات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ان کے لیے کثیر الفریقی حل تلاش کرنے کی کوشش کرنا ہو گی۔