اقوام متحدہ کے ادارہ یو این ویمن کا نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن کے تعاون سے مکالمے کا آغاز

بدھ 10 ستمبر 2025 23:00

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 10 ستمبر2025ء) اقوام متحدہ کے ادارے یو این ویمن نے نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن (این سی ایس ڈبلیو ) کے تعاون سے مکالمے کا آغاز کیا ہے جس کا عنوان ’’کیئر سسٹمز میں تبدیلی، پاکستان میں معاشی ترقی اور سماجی مساوات کا روڈ میپ ‘‘ تھا، اس مکالمے کا مقصد ملک کے مستقبل کی تشکیل ،دیکھ بھال اور نگہداشت سے جڑی معیشت کے کلیدی کردار کو اجاگر کرنا ہے۔

دو روزہ مکالمے کیلئے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شراکت دار ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے ہیں تاکہ کیئر اکانومی کے فروغ کے لئے مشترکہ ترجیحات طے کی جاسکیں اور ایسا پائیدار نظام تشکیل دیا جائے جو صنفی مساوات کو آگے بڑھائے، سماجی مساوات کو مستحکم کرے اور طویل مدتی معاشی ترقی کی بنیاد رکھے۔

(جاری ہے)

یہ مکالمہ پاکستان میں دیکھ بھال اور نگہداشت کے ایجنڈے کے فروغ کی جانب قومی و بین الا قوامی اداروں مثلاً نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف و یمن، یو این ویمن، یونیسف انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او)، حکومت ناروے، ٹیلی کام کمپنی جاز اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے اجتماعی عزم کی عکاسی کرتا ہے۔

پاکستان میں اقوام متحدہ کے ریزیڈنٹ کو آرڈینیٹر محمد یحییٰ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ میں دیکھ بھال اور نگہداشت سے متعلق اس اہم مکالمے کا حصہ ہوں جو صنفی مساوات، معاشی اختیار اور سماجی بہبود کے سب سے بڑے محرکات میں سے ایک ہے، جدید کیئر نظام ایک ایسی سوسائٹی کے خواب پر مبنی ہے جہاں دیکھ بھال اور نگہداشت کو انسانی اور معاشی ترقی کی بنیاد سمجھا جائے، اسے ایک مہارت پر مبنی پیشے کے طور پر تسلیم کیا جائے اور بنیادی انسانی حق مانا جائے۔

جاز کے کنزیومر ڈویژن کے صدر کا ظم مجتبیٰ نے دیکھ بھال اور نگہداشت کی ترقی میں کاروباری اداروں کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ نجی شعبے کی ذمہ داری ہے کہ کیئر کو چیلنج کے بجائے موقع میں بدلا جائے۔ کیئر سلوشنز میں سرمایہ کاری نہ صرف خواتین کی ورک فورس میں شمولیت کو ممکن بناسکتی ہے بلکہ معیشت کو مستحکم اور کاروبار کو زیادہ پائیدار بنا سکتی ہے۔

آسیان انٹر پار لیمنٹری اسمبلی (AIPA) کی سیکرٹری جنرل اے آر ستی روزا ئمیر بینتی داتو حاجی عبدالرحمان نے خطے میں کثیر الجہتی ایجنڈے کے فروغ میں پاکستان کی قائدانہ حیثیت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ شمولیتی اور مساوی نظام نگہداشت کے فوائد قومی سرحدوں تک محدود نہیں رہتے۔ پاکستان کی جانب سے دیکھ بھال اور نگہداشت کے شعبے کو اپنی ترقیاتی ترجیحات میں مرکزی حیثیت دینا خطے کے لئے ایک اہم مثال ہے۔

پائیدار اور مساوی نگہداشت کے فروغ میں سرمایہ کاری مضبوط معیشتوں ، مربوط معاشروں اور ایشیاء بھر میں مشتر کہ ترقی کا راستہ فراہم کرے گی۔مذکورہ فورم پر پاکستان کی کیئر اکانومی کے مختلف پہلوؤں پر جامع گفتگو کی جارہی ہے جس میں قومی تناظر ، معاشی و سماجی پہلو ، سماجی تحفظ کی پالیسیوں، باوقار کام کے فروغ کی پالیسیوں اور سرکاری و نجی شراکت داری کے ذریعے پائیدار اور شمولیتی نظام کے قیام پر تبادلہ خیال شامل ہے۔

مکالمے میں دیکھ بھال اور نگہداشت کے کام کے با معاوضہ اور بلا معاوضہ پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی جارہی ہے ، خاص طور پر ان سماجی رویوں کو تبدیل کرنے پر غور کیا جارہا ہے جن کی وجہ سے خواتین کے لئے ترقی کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کیئر اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کی صلاحیتوں کے تعلق، قومی عہد اور عالمی و علاقائی تجربات سے سیکھے گئے اسباق پر بھی گفتگو کی جارہی ہے تا کہ پاکستان کے پہلے کیئر اکانومی روڈ میپ کے لیے قابل عمل ترجیحات مرتب کی جاسکیں۔

اس مکالمے کا اہم نتیجہ ایک پالیسی پیپر کی صورت میں برآمد ہوگا جو دوروزہ اجلاس کے دوران سامنے آنے والی تجاویز اور سفارشات کو یکجا کرے گا۔ یہی پالیسی پیپر پاکستان کے پہلے کیئر اکانومی روڈ میپ کی بنیاد فراہم کرے گا، جو مستقبل میں اصلاحات ، سرمایہ کاری اور شراکت داریوں کی سمت طے کرے گا۔دوروزہ کثیر اسٹیک ہولڈر فورم پر ہونے والے مکالمے میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کے نمائندے، ترقیاتی شراکت دار ، سول سوسائٹی اور نجی و تعلیمی اداروں کے ماہرین شریک ہیں۔

نمایاں مقررین میں رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شرمیلا فاروقی، یو این ویمن پاکستان کے سربراہ جمشید ایم قاضی، یونیسف کی نائب سربراہ شرمیلا رسول، ڈاکٹر لیٹی شہناز (پرائیڈ کنسلٹنگ)، گل مینہ بلال (چیئر پر سن نیوٹیک)، در شہوار ( پاکستان یونائیٹڈ ورکرز فیڈریشن)، محمد جہانگیر (ہینڈی کیپ انٹر نیشنل ) ، ڈاکٹر ڈر نایاب (ڈائر یکٹر سوشیو اکنا مک انسائٹس اینڈ اینا لٹکس)، حمیر اضیاء مفتی (سیکرٹری این سی ایس ڈبلیو)، ایو و سپاوین (آئی ایل او) اور سمیعہ بشری ( بوپ انک) شامل ہیں۔ ان کے علاوہ قومی پالیسی ساز اور نجی شعبے کے رہنما بھی شریک ہیں۔