اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 ستمبر 2025ء) جمعہ کے روز حکومت کے اسلاموفوبیا کے خلاف خصوصی ایلچی کی جانب سے جاری کردہ آزادانہ رپورٹ میں کہا گیا کہ آسٹریلیا میں اسلاموفوبیا کی معمول بن جانے والی صورتِ حال اتنی عام ہو گئی ہے کہ کئی واقعات تو رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔
خصوصی ایلچی آفتاب ملک نے سڈنی میں ایک میڈیا بریفنگ کے دوران، جہاں البینیز بھی موجود تھے، کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ آسٹریلیا میں اسلاموفوبیا ایک مستقل مسئلہ رہا ہے، جسے کبھی نظرانداز کیا گیا، کبھی اس کا انکار کیا گیا، لیکن اسے کبھی سنجیدگی سے حل نہیں کیا گیا۔
‘‘انہوں نے کہا، ’’ہم نے عوامی مقامات پر گالیاں اور دیواروں پر لکھے گئے نفرت انگیز جملے دیکھے ہیں... ہم نے دیکھا ہے کہ مسلم خواتین اور بچوں کو صرف اس وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے کہ وہ کون ہیں اور کیا پہنتے ہیں۔
(جاری ہے)
‘‘
اسلاموفوبیا کے خلاف کمیٹی کی تجاویز
ساٹھ صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں حکومت کو 54 تجاویز دی گئی ہیں، جن میں مذہب کی بنیاد پر تفریق کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری قائم کرنے اور اسلاموفوبیا کے سماجی یکجہتی اور جمہوریت پر اثرات جانچنے کی سفارش بھی شامل ہے۔
آفتاب ملک کو گزشتہ سال یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ مسلم مخالف نفرت کو روکنے کے اقدامات تجویز کریں، کیونکہ آسٹریلیا میں تقریباً دو سال پہلے اسرائیل کی جانب سے فلسطینی گروپ حماس کے حملے کے جواب کے بعد اسلاموفوبیا اور سامیت مخالف واقعات میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر ہونے والے حملے ایک نیا موڑ ثابت ہوئے، جس کے بعد اسلاموفوبیا غیر معمولی سطح پر پہنچ گیا۔
‘‘اس تنازعے کے آغاز سے لے کر نومبر 2024 تک نفرت انگیز واقعات میں 150 فیصد اضافہ درج کیا گیا۔
الباینیز کی یقین دہانی
البینیز نے کہا کہ آسٹریلیائی شہریوں کو ان کے مذہبی عقائد کی بنیاد پر نشانہ بنانا ملک کی بنیادی اقدار پر حملہ ہے اور وہ رپورٹ کی سفارشات کو ’’بغور دیکھیں گے‘‘۔
انہوں نے کہا، ’’آسٹریلوی عوام کو کسی بھی کمیونٹی میں اپنے گھروں میں محفوظ محسوس کرنے کے قابل ہونا چاہیے... ہمیں اس نفرت، خوف اور تعصب کو ختم کرنا ہو گا جو اسلاموفوبیا اور سماجی تقسیم کو ہوا دیتا ہے۔
‘‘البینیز نے ایک سامیت مخالف ایلچی بھی مقرر کیا تھا، اور اس کی رپورٹ جولائی میں جاری کی گئی تھی جس میں سفارش کی گئی تھی کہ وہ یونیورسٹیاں جو یہودی طلبہ کو تحفظ دینے میں ناکام رہیں ان کی فنڈنگ بند کی جائے، اور ویزا درخواست دہندگان اور غیر شہریوں کی انتہا پسندانہ نظریات کے حوالے سے جانچ پڑتال کی جائے۔
ادارت: صلاح الدین زین