'فلسطینی ریاست نہیں بنے گی'، نیتن یاہو کا عہد

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 12 ستمبر 2025 13:20

'فلسطینی ریاست نہیں بنے گی'، نیتن یاہو کا عہد

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 ستمبر 2025ء) اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے جمعرات کے روز کہا کہ "کوئی فلسطینی ریاست نہیں ہو گی۔" نیتن یاہو نے یہ بات مقبوضہ مغربی کنارے میں مالے ادومیم بستی کے دورے کے دوران کہی۔

انہوں نے باضابطہ طور پر ایک تجویز پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت مقبوضہ مغربی کنارے کی بستیوں کو مزید وسعت دینے کے متنازعہ منصوبوں کے ایک حصے کے طور پر قریبی علاقوں میں ہزاروں نئے مکانات تعمیر کیے جائیں گے۔

نیتن یاہو نے کہا، "ہم اپنا وعدہ پورا کرنے جا رہے ہیں کہ کوئی فلسطینی ریاست نہیں ہوگی، یہ جگہ ہماری ہے۔"

اسرائیلی وزیر اعظم نے اس تقریب کے دوران مزید کہا، "ہم اپنے ورثے، اپنی سرزمین اور اپنی سلامتی کی حفاظت کریں گے۔

(جاری ہے)

" ان کے اس بیان کو براہ راست نشر کیا گیا۔

ای ون سیٹلمنٹ پروجیکٹ کیا ہے؟

مقبوضہ علاقے میں اسرائیلی تعمیرات کا جو نیا منصوبہ ہے، اس کے تحت تقریباً ساڑھے تین ہزار نئے مکانات تعمیر کیے جا آئیں گے۔

یہ تعمیرات ای ون نام سے معروف زمین کے ایک حصے پر کی جائیں گی، جس کا رقبہ تقریباً 12 مربع کلومیٹر ہے۔

یہ منصوبہ اس طرح مغربی کنارے کو کاٹ کر مشرقی یروشلم سے الگ کر دے گا۔

فلسطینی مشرقی یروشلم کو مستقبل کی ممکنہ اپنی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر دیکھتے ہیں اور یہ اصول دو ریاستی حل میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، جس کی بین الاقوامی برادری کی اکثریت حمایت بھی کرتی ہے۔

اس منصوبے کی منظوری گزشتہ ماہ اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت نے دی تھی۔ جرمنی سمیت کئی مغربی حکومتوں نے ان منصوبوں کی مذمت کی ہے۔

بین الاقوامی برادری کی شدید مخالفت کے درمیان یہ منصوبہ برسوں سے تعطل کا شکار بھی رہا ہے۔

سکیورٹی کونسل کی دوحہ پر حملے کی مذمت

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جمعرات کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ پر حالیہ حملوں کی مذمت کی، تاہم اسرائیل کے اتحادی امریکہ سمیت تمام 15 ارکان کی طرف سے متفقہ بیان میں اسرائیل کا نام نہیں لیا گیا۔

اسرائیل نے منگل کے روز دوحہ پر اپنے فضائی حملے سے حماس کے سیاسی رہنماؤں کو ہلاک کرنے کی کوشش کی، جسے امریکہ نے یکطرفہ حملہ قرار دیا اور کہا تھا کہ اس سے امریکی اور اسرائیلی مفادات کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔

امریکہ روایتی طور پر اقوام متحدہ میں اپنے اتحادی اسرائیل کو ہمیشہ بچاتا ہے، تاہم سلامتی کونسل کے بیان کے لیے امریکی حمایت سے اس مذمتی بیان کو اتفاق رائے سے منظور کیا گیا۔

یہ برطانیہ اور فرانس نے تیار کیا تھا، جس میں کہا گیا، "کونسل کے اراکین نے کشیدگی میں کمی کی اہمیت پر زور دیا ہے اور قطر کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہوں نے قطر کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے اپنی حمایت پر زور دیا ہے۔"

سلامتی کونسل کے بیان میں مزید کہا گیا ہے، "کونسل کے ارکان نے اس بات پر زور دیا کہ حماس کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد سمیت تمام یرغمالیوں کو رہا کیا جائے، اور غزہ میں جنگ اور مصائب کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

"

اسرائیل 'امن کی ہر کوشش کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے‘

قطری وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ دوحہ میں حماس کے رہنماؤں پر حملہ کر کے غزہ میں جنگ کے خاتمے کی کوششوں کو پٹری سے اتارنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم انہوں نے ثالثی کی کوششیں جاری رکھنے کا عہد کیا۔

انہوں نے کونسل کو بتایا،"جب ہم مذاکرات میں مصروف تھے تو ہمارے علاقوں پر حملے نے اسرائیل کے ارادے کو بے نقاب کر دیا۔

وہ امن کے کسی بھی امکان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ فلسطینی عوام کے مصائب کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آج اسرائیل پر حکومت کرنے والے انتہا پسندوں کو یرغمالیوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ یہ ان کی کوئی ترجیح نہیں ہے۔"

اس موقع پر پاکستان نے بھی یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا حماس کے ہاتھوں یرغمالیوں کی رہائی اسرائیل کی ترجیح ہے؟

اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر عاصم افتخار احمد نے کونسل کو بتایا، "یہ واضح ہے کہ قابض طاقت اسرائیل امن کے ہر امکان کو کمزور کرنے اور تباہ کر دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے پر تلی ہوئی ہے۔

"

امریکہ نے اسرائیل کا دفاع کیا

تاہم اقوام متحدہ میں قائم مقام امریکی سفیر ڈوروتھی نے اسرائیل کا دفاع کیا اور کہا، "کسی بھی رکن کے لیے یہ نامناسب ہے کہ وہ اپنے یرغمالیوں کو گھر واپس لانے کے لیے اسرائیل کے عزم پر سوال اٹھائے۔"

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ "قطر کے اندر یکطرفہ بمباری، ایک خودمختار ملک، جو بہت محنت اور بہادری سے امریکہ کے شانہ بشانہ خطرات مول لے کر امن کے قیام کے لیے کام کر رہا ہے، اسرائیل یا امریکہ کے مقاصد کو آگے نہیں بڑھاتا ہے۔

"

اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے اس حملے پر سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا،"یہ حملہ ایک پیغام دیتا ہے، جس کی گونج اس چیمبر میں ہونی چاہیے۔ دہشت گردوں کی کوئی پناہ گاہ نہیں، نہ غزہ میں، نہ تہران میں، نہ دوحہ میں۔ دہشت گردوں کے لیے کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ دہشت گرد عناصر جہاں کہیں بھی چھپے ہوں گے ہم ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔"

ادارت: جاوید اختر