Live Updates

پاکستان:سیلاب میں بچ جانے والوں کی زندگی ایک مسلسل امتحان

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 12 ستمبر 2025 15:40

پاکستان:سیلاب میں بچ جانے والوں کی زندگی ایک مسلسل امتحان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 ستمبر 2025ء) کچھ علاقوں میں اس وقت سیلاب اپنے عروج پر ہے ، جیسے کہ ملتان اور مظفرگڑھ کے علاقے، جبکہ وہ علاقے جہاں سے سیلاب گزر چکا ہے وہ بھی مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ پانی ابھی تک مکمل طور پر نہیں اُترا اور یہ صورتحال اُن لوگوں کی زندگیوں کو اذیت ناک بنا رہی ہے۔ ان کے پاس نہ تو پانی نکالنے کے وسائل ہیں اور نہ ہی اپنے گھروں کو واپس جانے کا کوئی راستہ۔

سیلاب متاثرین کو کون کونسی مشکلات درپیش ہیں؟

ڈی ڈبلیو نے مختلف سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرہ برادریوں کے افراد سے بات کی، جن کا کہنا ہے کہ نہ صرف اُن کی جائیدادوں کو نقصان پہنچا ہے اور مال مویشی ضائع ہوئے ہیں بلکہ وہ خوراک کی کمی کے ساتھ ساتھ اپنے باقی ماندہ مویشیوں کے چارے کے لیے بھی مشکلات کا شکار ہیں اور مختلف بیماریوں خصوصاً جلدی امراض کا بھی سامنا کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

اگرچہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ متاثرینِ سیلاب کی مدد کے لیے تمام وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں، لیکن متاثرہ برادریوں کا کہنا ہے کہ یا تو حکومت کے پاس وسائل ناکافی ہیں یا پھر وہ موجودہ وسائل کو منظم طریقے سے بروئے کار نہیں لا رہی۔ اُن کا مؤقف ہے کہ حکومت کو متاثرین کی ضروریات کو سمجھ کر اُنہیں حل کرنا چاہیے، اور فی الحال سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اُن علاقوں سے پانی نکالنے کا کوئی طریقہ ڈھونڈا جائے جہاں سے سیلاب گزر چکا ہے۔

حمزہ نصیر، جو وزیرآباد اور گجرات کے قریب ایک گاؤں کے رہائشی ہیں اور ایک وکیل ہیں، نے بتایا کہ چاول کی فصل مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے اور اب انہیں خدشہ ہے کہ اگر پانی بروقت نہ نکالا گیا تو وہ گندم کی فصل بھی کاشت نہیں کر پائیں گے۔ انہوں نے کہا،''ہم اپنی طرف سے جو کچھ کر سکتے تھے وہ ہم نے کر لیا، لیکن پانی ہم اپنے طور پر نہیں نکال سکتے، اس کے لیے بھاری مشینری کی ضرورت ہے تاکہ پانی کو واپس دریا کی طرف لے جانے کے لیے راستے بنائے جا سکیں۔

‘‘ ان کا کہنا تھا کہ سیلاب اپنے ساتھ ریت اور مٹی بھی لاتا ہے جو پانی کے واپس جانے کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ ‘‘ حکومت کو چاہیے کہ علاقے کا لینڈ سروے کرے تا کہ پانی نکالنے کا مستقل بندوبست ہو سکے۔‘‘

کن علاقوں میں سیلاب ابھی تک تباہی مچا رہا ہے؟

دوسری جانب، وہ علاقے جہاں سیلاب اپنے عروج پر ہے، جیسے ملتان، مظفرگڑھ اور جلال پور پیروالہ، وہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کا بدترین وقت دیکھا ہے۔

محمد شیر مسوان، جو جلال پور پیروالہ میں مقامی یونین کونسل کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پورا علاقہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے تیر کر نکلے۔ اُن کی تمام فصلیں تباہ ہو چکی ہیں اور متاثرہ کمیونٹی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے امداد بھی ناکافی ہے۔ اُنہوں نے کہا، ’’لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اس آفت میں زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اصل مسئلہ اُس وقت شروع ہوگا جب وہ اپنی زندگیوں میں واپس لوٹیں گے اور اُن کے پاس کچھ بھی باقی نہیں ہوگا۔

‘‘

قدرتی آفت نے نہ صرف جلال پور پیروالہ، ملتان اور مظفرگڑھ کے لوگوں کو متاثر کیا اور ان کی زندگیاں تباہ کیں بلکہ مقامی پرائیویٹ کشتی مالکان نے بھی اس صورتحال سے فائدہ اُٹھایا اور ڈوبتے ہوئے لوگوں سے محفوظ خشک جگہ تک پہنچانے کے لیے بھاری رقوم وصول کرنا شروع کر دیں۔ مظفرگڑھ کے علاقے میں ایک فلاحی تنظیم کے ساتھ کام کرنے والے عبداللہ رانا نے بتایا کہ پرائیویٹ کشتی مالکان نے لوگوں سے ایک لاکھ روپے تک وصول کیے تاکہ انہیں محفوظ مقام پر منتقل کیا جا سکے اور یہ رقم متاثرہ شخص کی حالت کے مطابق طے کی جاتی تھی۔

جتنی سنگین صورتحال ہوتی، اتنا ہی زیادہ کرایہ مانگا جاتا۔

عبداللہ رانا، جو اس تباہی کے عینی شاہد بھی ہیں، نے بتایا کہ لوگوں نے پانی عبور کرنے کے لیے بڑی لوہے کی کڑاہیاں استعمال کیں کیونکہ ہر کسی کے لیے کشتیاں دستیاب نہیں تھیں اور جو پرائیویٹ کشتیاں موجود تھیں وہ عوام کی پہنچ سے باہر تھیں۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ اب مقامی انتظامیہ نے پرائیویٹ کشتیوں پر قابو پا لیا ہے، لیکن اُس سے پہلے ان کشتی مالکان نے ڈوبتے ہوئے لوگوں سے بھاری رقوم بٹور لیں۔

انہوں نے بتایا کہ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بہت کچھ کیا ہے۔ کئی اسکولوں کا فرنیچر پانی آنے سے پہلے ہی محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ اب وہ علاقے مکمل طور پر پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اگر مقامی برادری نے مدد نہ کی ہوتی تو اسکولوں کا سارا فرنیچر اور سامان تباہ ہو جاتا، جس کا کچھ حصہ کسی حد تک بچا لیا گیا ہے۔

پنجاب حکومت کے سب کچھ قابو میں ہونے کے دعووں نے متاثرہ لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔

سجاد اظہر، جو ایک مصنف ہیں اور ایک فلاحی تنظیم کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ماضی کی آفات کے مقابلے میں اس بار بہت کم فنڈز اکٹھا ہوئے ہیں اور اس وجہ سے فلاحی تنظیموں کے لیے اپنا کردار ادا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مقامی اور خاص طور پر بین الاقوامی برادری کو اس آفت کے حجم سے آگاہ ہی نہیں کیا گیا، کیونکہ مجموعی طور پر میڈیا بلیک آؤٹ کی صورتحال رہی۔

ادارت: کشور مصطفیٰ

Live سیلاب کی تباہ کاریاں سے متعلق تازہ ترین معلومات