اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 ستمبر 2025ء) جنوبی افریقہ کی آئینی عدالت نے ایک تاریخی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ مرد بھی اپنی بیوی کا خاندانی نام اختیار کر سکتے ہیں، جبکہ اس پر پابندی لگانے والا پرانا قانون غیر آئینی ہے۔
یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا، جب دو جوڑوں نے وزارتِ داخلہ پر صنفی امتیاز کا مقدمہ دائر کیا۔ ایک جوڑا دونوں کے خاندانی ناموں کو ساتھ جوڑنا چاہتا تھا، جبکہ دوسرے جوڑے میں شوہر بیوی کا خاندانی نام لینا چاہتا تھا۔
جسٹس لوئنا تھیرون نے کہا کہ موجودہ قانون صنف کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرتا ہے اور یہ ایک ''نوآبادیاتی ورثہ‘‘ ہے، جسے سفید فام اقلیت کی حکومت کے دورِ نسل پرستی (اپارتھائیڈ) میں متعارف کرایا گیا تھا۔
(جاری ہے)
عدالت نے حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ دو سال کے اندر اندر اس قانون میں ترمیم کرے۔
عدالت کے فیصلے میں کہا گیا کہ بہت سی افریقی ثقافتوں میں خواتین شادی کے بعد بھی اپنا پیدائشی نام برقرار رکھتی ہیں اور بچوں کو اکثر ماں کے قبیلے کا نام دیا جاتا تھا۔
مگر یورپی نوآبادیات اور مسیحی مشنریوں کے آنے کے بعد مغربی روایت مسلط ہوئی جس میں عورتیں شوہر کا خاندانی نام اپناتی تھیں۔فیصلے پر سوشل میڈیا پر شدید بحث چھڑ گئی۔ کچھ نے اسے برابری کی جانب مثبت قدم قرار دیا جبکہ زیادہ تر مرد صارفین نے کہا کہ یہ روایت اور ثقافت کے خلاف ہے۔ ایک خاتون نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا، ''یہ فیصلہ لازمی نہیں، صرف آپشن ہے۔ مرد کیوں گھبرا رہے ہیں؟ ذرا پرسکون ہو جائیں!‘‘
ادارت: عاطف توقیر