عالمی سطح پر مقابلہ اور ترقی کے لیے پاکستان کو اپنے معاشی نظام میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا چاہیے،سیف الرحمن

اتوار 14 ستمبر 2025 11:50

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 ستمبر2025ء) وفاقی ٹیکس محتسب کے کوآرڈینیٹر سیف الرحمان نے کہا ہے کہ عالمی سطح پر مقابلہ اور ترقی کے لیے پاکستان کو اپنے معاشی نظام میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا چاہیے۔ اتوار کو یہاں "ترقی کر مواقع اور امکانات" کے موضوع پر ایک سیمینار میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اقتصادی ترقی کی صلاحیتوں سے مالا مال ہے لیکن ان کو بروئے کار نہیں لایا جا رہا اور متعدد سماجی و اقتصادی عشاریوں میں ہم اپنے پڑوسیوں سے پیچھے ہیں۔

معروضی حالات اور پیچیدہ سیاسی منظرنامے کی وجہ سے انسانی وسائل کی ترقی پر توجہ مرکوز نہیں ہے۔ پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے پاکستان کو اپنے معاشی نظام اور کاروباری ماحول میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ جامع اصلاحات، رائٹ سائزنگ، ریگولیٹری اقدامات اور ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے شفافیت، پیشہ ورانہ مہارت اور مسابقت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے، معیشت کو سرپرستی، سبسڈیز، اور غیر معینہ ٹیرف پر انحصار سے نکالنا ہو گا، خاندانی کاروبار کو پیشہ ورانہ سٹائل اپنانا چاہیے،ملٹی نیشنل کمپنیوں کو برآمدات پر توجہ اور مصنوعات و مارکیٹوں کو متنوع بنانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اقتصادی ترقی کے مختلف ادوار دیکھے ہیں لیکن یہ طویل مدتی نہیں ہیں۔ سٹرکچرل رکاوٹیں اور زیادہ کاروباری اخراجات کے باعث ترقی کی رفتار محدود ہے،نو آبادیاتی دور کے بہت سے قوانین اب بھی موجود ہیں جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اختیارات کی وفاق سے صوبوں کو منتقلی کا مقصد مقامی طرز حکمرانی کو مضبوط کرنا تھا، یہ ہدف ابھی تک حاصل نہیں ہو سکا۔

انہوں نے کہا کہ مالیاتی حکام انہی شعبوں سے زیادہ ٹیکس وصولیوں پر زور دیتے ہیں جن کا ہدف سرمایہ کاری، برآمدات میں اضافہ اور روزگار کی تخلیق ہے۔ فیصلہ سازوں کی توجہ دیرپا منصوبہ بندی کی بجائے فوری حل پر مرکوز رہتی ہے۔ سیف الرحمان نے کہا کہ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری تیزی سے اور فوری منافع کمانے والے شعبوں اور اشیائے خوردونوش میں ہوتی ہے جن کا ہدف برآمدای شعبہ نہیں ہے،ہمیں برآمدات بڑھانے اور نئی مہارتیں و ٹیکنالوجی لانے کے لیے مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاری پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ نجی شعبے کو تبدیلی کی قیادت کرنی چاہیے اور حکومت کو زیادہ پیدا واری لاگت، صنعتی قرضوں میں مشکلات، افسر شاہی کی پیچیدگیوں اور بھاری ٹیکسوں کا حل تلاش کرنا چاہیے،ہمیں ایسی صنعتی پالیسی کی ضرورت ہے جو ان علاقوں اور شعبوں میں سرمایہ کاری کو راغب کرے جہاں اس کا فائدہ زیادہ اور ہدف برآمدات ہوں، سرمایہ کاروں کو بھی روایتی صنعتوں سے آگے دیکھنا چاہیے اور جدت، ٹیکنالوجی اور انسانی وسائل کی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔