افغانستان زلزلہ: متاثرہ خواتین و لڑکیوں کی مدد میں طالبانی پابندیاں حائل

یو این جمعہ 19 ستمبر 2025 21:30

افغانستان زلزلہ: متاثرہ خواتین و لڑکیوں کی مدد میں طالبانی پابندیاں ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 19 ستمبر 2025ء) صنفی مساوات کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے 'یو این ویمن' نے بتایا ہے کہ افغانستان میں آنے والے تباہ کن زلزلے سے متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کو اپنی زندگیوں اور روزگار کی بحالی میں بہت بڑے مسائل کا سامنا ہے جن پر قابو پانے کے لیے انہیں مدد کی دستیابی نہ ہونےکے برابر ہے۔

ملک میں ادارے کی خصوصی نمائندہ سوزن فرگوسن نے کہا ہے کہ اگرچہ زلزلے کے بعد اس کے بڑے ثانوی جھٹکے تھم چکے ہیں لیکن متاثرہ علاقوں میں ہنگامی مدد کے بغیر خواتین کے لیے یہ آفت طویل مدتی مسائل لائی ہے۔

Tweet URL

انہوں نے بتایا ہے کہ ادارے کی مدد سے کام کرنے والی خاتون امدادی اہلکاروں نے انہیں آگاہ کیا کہ زلزلے کے بعد متاثرہ علاقوں تک پہنچنے کے لیے انہیں دشوار گزار علاقوں سے جان کا خطرہ مول لے کر گزرنا پڑا جہاں زلزلے کے ثانوی جھٹکوں کے نتیجے میں پہاڑوں سے متواتر پتھر گر رہے تھے۔

(جاری ہے)

علاوہ ازیں، خواتین کے پاس اپنی ضروریات اور خدشات بیان کرنے کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا، کیونکہ انہیں مردوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

محفوظ پناہ گاہوں کی ضرورت

تقریباً دو ہفتے قبل افغانستان کے مشرقی صوبے کنٹر اور ننگرہار میں آںے والے 6.0 شدت کے زلزلے میں کم از کم 2,200 افراد کی ہلاکت ہوئی۔ کنڑ کے مرکزی ضلع چوکی میں متاثرہ خواتین سے ملاقات کے بعد سوزن فرگوسن نے کہا ہے کہ سردی کا موسم قریب آ رہا ہے اور ان حالات میں خواتین کو جلد از جلد مضبوط اور محفوظ پناہ گاہوں کی ضرورت ہو گی۔

ان خواتین نے انہیں بتایا کہ جب زلزلہ آیا تو وہ نصف شب اپنے اہلخانہ کے ساتھ گاؤں سے بھاگ نکلیں اور پناہ کی تلاش میں گھنٹوں پیدل چلتی رہیں۔ ایسی بہت سی خواتین کے قریبی رشتہ دار زلزلے میں ہلاک ہو گئے یا ملبے تلے دبے ہیں۔ ان کے گھر اور روزگار تباہ ہو گئے ہیں اور وہ بتاتی ہیں کہ ان کے پاس اب کچھ نہیں بچا۔

خواتین امدادی عملے پر پابندیاں

اس آفت کے بعد انسانی امداد کی فراہمی کو اقوام متحدہ کے دفاتر میں افغان خواتین پر مشتمل عملے کے داخلے پر پابندی نے شدید متاثر کیا ہے جو 5 ستمبر سے نافذ العمل ہے۔

فرگوسن نے کہا ہے کہ طالبان حکام کی جانب سے عائد کردہ یہ پابندی امدادی کارکنون کے لیے رکاوٹ بن رہی ہے کیونکہ خواتین عملے کو دفتر آ کر کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ تاہم، اس کے باوجود خواتین امدادی کارکن اب بھی متاثرہ علاقوں میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔

اس آفت میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں خواتین اور لڑکیوں کی تعداد نصف سے زیادہ ہے جبکہ لاپتہ افراد میں بھی 60 فیصد تعداد خواتین کی ہے۔

زندہ بچ جانے والی بہت سی خواتین خیموں میں یا کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔

امداد کی فراہمی میں ثقافتی رکاوٹیں

خصوصی نمائندہ نے بتایا کہ زلزلے سے متاثرہ افراد کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا ترجیح ہے اور اس مقصد کے لیے خاطرخواہ تعداد میں خواتین طبی عملے کی دستیابی بھی ضروری ہے جو مقامی ثقافتی ماحول کے مطابق کام کر سکیں۔

امدادی طبی کارکنوں نے بتایا کہ زلزلے سے متاثرہ بعض علاقوں میں ثقافتی روایات کے باعث خواتین خود نہیں چاہتی تھیں کہ مرد امدادی کارکن انہیں چھوئیں جبکہ وہ انہیں بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔

بنیادی ڈھانچے کی تباہی نے بھی زلزلے سے متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے خطرات کو بڑھا دیا ہے کیونکہ اب انہیں رفع حاجت کے لیے یا پانی کی تلاش میں مزید دور جانا پڑتا ہے جہاں انہیں بارودی سرنگوں کا خطرہ بھی لاحق رہتا ہے۔

سیٹلائٹ سے حاصل ہونے والی تصاویر سے سامنے آیا ہے کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں 649,000 ٹن سے زیادہ ملبہ موجود ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے مطابق، زلزلے میں کم از کم 23 ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔