شام کی نازک صورتحال ہمہ گیر سیاسی عمل کے بغیر بگڑنے کا خطرہ، پیڈرسن

یو این جمعہ 19 ستمبر 2025 21:30

شام کی نازک صورتحال ہمہ گیر سیاسی عمل کے بغیر بگڑنے کا خطرہ، پیڈرسن

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 19 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ شام کی بحالی کے لیے ہونے والی نازک کوششیں مشمولہ سیاسی عمل، ملک کو امداد کی متواتر فراہمی اور قومی خود مختاری کے احترام کے بغیر کسی بھی وقت بگڑ سکتی ہیں۔

شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے جیئر پیڈرسن نے کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے عبوری حکام کو صرف تباہ شدہ عمارتوں کا ملبہ ہی نہیں بلکہ بکھرے ہوئے سماج، زوال پذیر ادارے اور تباہ حال معیشت جیسا نقصان بھی وراثت میں ملا ہے۔

ملک میں غیر ملکی عسکری کارروائیوں، سیاسی اخراج اور وسائل کی کمی کے باعث بحالی کی جانب پیش رفت ناکامی سے دوچار ہو سکتی ہے۔

Tweet URL

اس بریفنگ کے بعد عہدے سے سبکدوش ہونے کا اعلان کرنے والے جیئر پیڈرسن نے عالمی برادری پر زور دیا کہ اسے شام کے لیے حمایت اور تعاون فراہم کرنا اور غیر ملکی مداخلت کے خلاف مضبوطی سے کھڑا ہونا ہو گا۔

(جاری ہے)

سب سے بڑھ کر، ملک میں عبوری سیاسی عمل کی کامیابی کے لیے ریاست کو تمام شہریوں کے لیے زبانی ہی نہیں بلکہ عملی طور پر ریاست بننے کی ضرورت ہے۔

امیدیں اور خدشات

خصوصی نمائندے نے ملک میں جاری غیرملکی عسکری کارروائیوں کے پس منظر میں شام کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام پر زور دیا جبکہ رواں ماہ ملک میں مزید اسرائیلی حملوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سلامتی سے متعلق خدشات کو سفارت کاری کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے اور اگر ان معاملات سے درست انداز میں نہ نمٹا گیا، تو ملک کی بحالی کا عمل متاثر ہو گا جبکہ بدترین صورت میں شام نئی خانہ جنگی اور بیرونی مداخلت کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔

جیئر پیڈرسن نے اقلیتی دروز آبادی کے علاقے سویدہ کی مثال دی جہاں جولائی میں شدید جھڑپوں کے بعد جنگ بندی بڑی حد تک برقرار ہے۔

انہوں نے شام، اردن اور امریکہ کے درمیان گزشتہ ہفتے طے پانے والے لائحہ عمل کا خیر مقدم بھی کیا جس کا مقصد ملک میں احتساب، انسانی امداد کی رسائی اور مفاہمت کو فروغ دینا ہے۔

تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ دروز برادری کے خدشات کا ازالہ مکالمے اور اعتماد سازی کے ذریعے کیا جانا ضروری ہے۔

شدید انسانی بحران

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی رابطہ کار ٹام فلیچر نے کونسل کو بتایا کہ شام کو دنیا کے بہت بڑے انسانی بحران کا سامنا ہے۔

ملک کی 70 فیصد سے زیادہ آبادی کو کسی نہ کسی شکل میں امداد کی ضرورت ہے جبکہ 90 لاکھ افراد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ سات لاکھ افراد اب بھی شام کے اندر بے گھر ہیں اور تقریباً 40 لاکھ شامی پناہ گزین دوسرے ممالک میں مقیم ہیں۔

ان تمام تشویشناک اعداد و شمار کے باوجود، انہوں نے قدرے مثبت پیش رفت کی نشاندہی بھی کی اور بتایا کہ عبوری حکام کے ساتھ زیادہ عملی اور مؤثر روابط کے نتیجے میں امداد اُن لوگوں تک بھی پہنچ رہی ہے جو ایک سال قبل ناقابلِ رسائی تھے۔

ہر ماہ دس لاکھ افراد کو غذائی امداد فراہم کی جا رہی ہے جبکہ مزید بیس لاکھ افراد کو سستی قیمت پر روٹی مہیا کی جا رہی ہے۔

امدادی وسائل کی ضرورت

گزشتہ سال دسمبر سے اب تک تقریباً نو لاکھ پناہ گزین اور اندرون ملک بے گھر 19 لاکھ افراد اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ تاہم، ان میں سے بیشتر کو اب بھی تباہ شدہ مکانات، روزگار کی کمی اور مسلسل عدم تحفظ جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے شام کے لیے طلب کردہ امدادی وسائل میں سے اب تک 18 فیصد ہی حاصل ہو پائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ہسپتال، خواتین کے لیے محفوظ مقامات اور کمیونٹی سینٹر بند ہو گئے ہیں۔ انہوں نے رکن ممالک سے اپیل کی کہ وہ ملک میں استحکام کو برقرار رکھنے، اسے انسانی امداد کی فراہمی اور شام کے لوگوں کی قیادت میں بحالی کے عمل میں مدد دیں۔