پاکستانی سائنسدانوں نے گلاب کی نئی قسم متعارف کرا دی، کسان ایک ایکڑ سے 15 لاکھ روپے تک کما سکیں گے

بدھ 24 ستمبر 2025 22:01

جڑانوالہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 24 ستمبر2025ء)پاکستانی سائنسدانوں نے گلاب کی ایک نئی قسم تیار کی ہے جو کسانوں کو فی ایکڑ سالانہ 15 لاکھ روپے تک منافع دلا سکتی ہے۔ یہ پیشرفت نہ صرف مقامی کسانوں کے لئے آمدنی کا نیا ذریعہ فراہم کرے گی بلکہ پاکستان کو 60 ارب ڈالر کی عالمی فلوریکلچر مارکیٹ میں داخلے کا بھی موقع دے گی۔انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹیکلچرل سائنسز، یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد (یو اے ایف) کے ماہرین نے اس نئی قسم کو ''روزا سینٹی فولیئا یو اے ایف'' کے نام سے متعارف کرایا ہے۔

محققین کے مطابق اس پھول کی گرمی برداشت کرنے کی صلاحیت اور صنعتی استعمال کے وسیع مواقع اسے کسانوں اور برآمد کنندگان کے لئے ایک ''گیم چینجر'' بناتے ہیں۔یو اے ایف کے پروفیسر آف فلوریکلچر ڈاکٹر افتخار احمد نے ویلتھ پاکستان سے گفتگو میں بتایا کہ اس قسم کے ایک ایکڑ میں لگائے گئے تقریباً 5 ہزار پودے ایک کلو اعلیٰ معیار کا گلاب کا تیل پیدا کرتے ہیں جس کی قیمت تقریباً 15 لاکھ روپے بنتی ہے۔

(جاری ہے)

اخراجات نکالنے کے بعد کسان کو فی ایکڑ 7 لاکھ 40 ہزار روپے تک خالص منافع ہوتا ہے، جو بڑے پیمانے پر کاشت کرنے والوں کے لیے انتہائی منافع بخش ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسان گلاب کا تیل نکالنے میں سرمایہ کاری نہ کرسکیں تو بھی دیگر ذرائع سے اچھی آمدنی ممکن ہے۔ صرف پتیوں کی فروخت سے فی ایکڑ چار لاکھ روپے تک کی آمدنی ہوسکتی ہے، جس میں خالص منافع ڈھائی لاکھ روپے کے قریب رہتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گلاب کو عرق گلاب میں پروسیس کرنے سے فی ایکڑ 50 ہزار لیٹر تک پیداوار حاصل ہوسکتی ہے جس سے تقریباً 15 لاکھ روپے کی فروخت اور چھ لاکھ روپے منافع ممکن ہے۔ اسی طرح گلقند بنانے سے فی ایکڑ ساڑھے سات لاکھ روپے کی فروخت اور اڑھائی لاکھ روپے خالص آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ڈاکٹر افتخار کے مطابق یہ مختلف کاروباری ماڈلز کسانوں اور صنعتکاروں دونوں کے لیے موزوں ہیں تاکہ وہ اپنی سرمایہ کاری کے مطابق فائدہ اٹھا سکیں۔

یہ نئی قسم روایتی سرخ گلاب (سرخا) کے برعکس شدید گرمی میں بھی پھول دیتی ہے اور 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت میں بھی اپنی خوشبو اور شکل برقرار رکھتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ایک ایسی قسم ہے جو پاکستان کے بدلتے ہوئے موسمی حالات کے لیے تیار کی گئی ہے۔ یہ شدید گرمی میں بھی اپنے سائز، خوشبو اور تیل کے معیار کو برقرار رکھتی ہے۔روزا سینٹی فولیئا یو اے ایف کی اوسط عمر 12 سے 15 سال ہے اور ہر پودا سالانہ 500 سے 700 خوشبودار پھول دیتا ہے، جو اسے کسانوں کے لیے طویل المدتی سرمایہ کاری کی فصل بناتا ہے۔

عالمی سطح پر گلاب کا تیل، عرق گلاب، خشک پتیوں اور گلقند کی مصنوعات انتہائی قیمتی سمجھی جاتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس نئی قسم سے نکالا گیا گلاب کا تیل دنیا بھر میں مشہور ''روزا ڈیمیسینا'' کے برابر معیار رکھتا ہے جبکہ اس کا عرق گلاب اور گلقند مقامی طور پر اگنے والے ''روزا چائنینسس'' سے کہیں بہتر ہے۔ڈاکٹر افتخار احمد نے ویلتھ پاکستان کو بتایا کہ یہ گلاب خوشبو، کاسمیٹکس، خوراک اور دوائیوں سمیت مختلف صنعتوں کے لئے مواقع فراہم کرتا ہے۔

یہ ایک نایاب مثال ہے جہاں کسان اور صنعتکار دونوں یکساں طور پر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔یہ نئی قسم نومبر سے فروری کے درمیان قلموں کے ذریعے آسانی سے اگائی جاسکتی ہے جس سے کسانوں کے لئے اس کی کاشت کے دروازے مزید کھل جاتے ہیں۔ کسان اسے اپنی موجودہ فصلوں کے ساتھ لگا کر آمدنی میں اضافہ کرسکتے ہیں۔پاکستانی برآمدات میں تنوع اور کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لئے یہ نئی گلاب کی قسم ایک امید افزا حل پیش کرتی ہے۔

بڑے پیمانے پر 50 ایکڑ یا اس سے زیادہ پر کاشت کرنے والے کسان عالمی مارکیٹ کو ہدف بنا سکتے ہیں جبکہ چھوٹے کسان مقامی طلب کو پورا کرکے اپنی گزر بسر بہتر بنا سکتے ہیں۔ڈاکٹر افتخار نے کہا کہ روزا سینٹی فولیئا یو اے ایف صرف ایک پھول نہیں بلکہ 15 سالہ کیش کراپ ہے جو پاکستان کے فلوریکلچر سیکٹر کو نئی جہت دے سکتی ہے اور کسانوں کے لئے حقیقی معنوں میں خوشحالی لا سکتی ہے۔