بلوچستان اسمبلی ،پرنس فہد ہسپتال دالبندین ، بلوچستان اسمبلی استحقاق سے متعلق قوانین منظور

جمعہ 3 اکتوبر 2025 13:23

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 اکتوبر2025ء) بلوچستان اسمبلی نے پرنس فہد ہسپتال دالبندین ، بلوچستان اسمبلی استحقاق سے متعلق قوانین منظور کرلیے ، گوادر کو میونسپل کارپوریشن کا درجہ دینے ، صوبے میں تعلیم کے شعبے کی بہتری کے لیے تجاویز پر مبنیٰ الگ الگ قراردادیں منظور کرلیں ۔ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعرات کو اسپیکر عبدالخالق اچکزئی کی زیر صدارت شروع ہوا ۔

اجلاس میں وقفہ سوالات متعلقہ وزرا کی عدم موجودگی کے باعث موخرکردیا گیا ۔ اجلاس کے دوران جمعیت علماء اسلام کے رکن میر زابد علی ریکی نے ناگ سے واشک روڈ کی تعمیرکے حوالے سے توجہ دلاو نوٹس پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیر برائے محکمہ مواصلات و تعمیرات کی توجہ ایک اہم مسئلہ کی جانب مبذول کروائینگے کہ ناگ تا واشک روڈ فیز 2 جو کہ 14 کلو میٹر ہے کو پی ایس ڈی پی سال 25-2024 میں شامل کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

لیکن روڈ پر تعمیراتی کام انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ لبد انذکورہ روڈ کی تعمیر کے لئے اب تک محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات نے کل کتنی رقم ریلیز کی ہے۔ اور روڈ کی تعمیر کو کب تک مکمل کیا جائے گا۔ تفصیل فراہم کی جائے۔بعدازاںصوبائی وزیر سردار عبدالرحمن کھیتران کی یقین دھانی پر توجہ دلائو نوٹس نمٹا دیا گیا۔اجلاس میں صوبا ئی وزیر بخت محمد کاکڑ نے ایوان میںپرنس فہد ہسپتال دالبندین ترمیمی مسودہ قانون ، بلوچستان اسمبلی استحقاق کا ترمیمی مسودہ قانون پیش کیے جنہیں ایوان نے منظور کرلیا۔

اجلاس میںاظہار خیال کرتے ہوئے رکن اسمبلی میر زابد علی ریکی نے کہا کہ بلوچستان میں کھیل کے لئے فنڈز دینے میں واشک کو نظر انداز کیا گیا ۔رکن اسمبلی سید ظفر آغا نے کہا کہ پشین اور قلعہ عبداللہ کو فنڈز نہیں دئیے گئے جس پر مشیر کھیل مینا مجید نے کہا کہ ہم اسپورٹس کے حوالے سے کیلنڈر بناتے ہیں ۔ مشیر کھیل مینا مجید نے کہا کہ ہم نے صوبے کے تمام علاقوں میں اسپورٹس فیسٹیول کئے ہیں کوئٹہ میں ہونے والے مقابلوں میں پشتون کھلاڑیوں نے شرکت کی ۔

رکن اسمبلی انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ مکران میں کھیلوں کے مقابلے ہورہے ہیں ڈیم بن رہے ہیں ،ہمارے علاقوں میں کچھ نہیں ہے ،ہم پرامن ہیں تو پشتون علاقوں کونظرانداز کیا جارہا ہے ۔ صوبائی وزیر سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ پچھلے دنوں باکسنگ کا انٹرنیشنل مقابلوں کرائے گئے فٹبال اور کرکٹ کے مقابلے بھی کرائے گئے جو قابل ستائش ہے۔

صوبائی وزیر میر ظہور بلیدی نے کہا کہ موجودہ حکومت نے فنڈز کی تقسیم میں کوئی تفریق نہیں کی زمرک خان پی ایس ڈی پی کمیٹی کے ممبر ہیںترقی سب کی ضرورت ہے جہاں ضرورت ہوگی تو فنڈز دئیے جائیں گے ۔اجلاس میں رکن اسمبلی مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے گوادر کو میونسپل پولیٹن کارپوریشن کا درجہ دینے کی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ گوادر آج انٹرنیشنل شہر کے طور پر جانا جاتا ہے۔

معاشی اور جغرافیائی اعتبار سے اہمیت کا حامل علاقہ ہے ، ماضی میں گوادر کو سرمائی دارالحکومت بھی قرار دیا جا چکا ہے۔ اسی طرح پورٹ سٹی کا بھی درجہ حاصل ہے پورٹ کی وجہ سے گوادر کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔ لیکن افسوس کہ گوادر کو اب تک ایم سی کا درجہ حاصل ہے جس کی وجہ سے گوادر ایم سی کے منتخب لوگ وسائل کم ہونے کی وجہ سے گوادر کی خوبصورتی اور ترقی میں وہ کردار ادا نہیں کر سکتے ہیں۔

گذشتہ سالوں کے دوران صوبے کے کئی علاقوں کو ایم سی سے میونسپل کارپوریشن کا درجہ دیا گیا ہے لیکن اس میں گوادر کو نظر انداز کیا گیا۔ لہذا ایہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ گوادر کو ایم سی سے میونسپل کارپوریشن کا درجہ دیا جائے تا کہ گوادر کار پوریشن کے ساتھ عوام کی صحیح خدمت۔قرارداد پر بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر میر ظہور بلیدی نے کہا کہ گوادر بلوچستان کا مستقبل ہے، اسلام آباد کے بعد گوادر کی پلاننگ ہوئی ہے ہم اسی پلاننگ کے تحت گوادر میں کام کررہے ہیں گوادر کو میونسپل کارپوریشن کا درجہ دیا جائے۔

پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر صوبائی وزیر میر صادق عمرانی نے کہا کہ ڈیرہ مراد جمالی کو بھی میونسپل کارپوریشن کادرجہ دیا جائے۔ جس پر اسپیکر نے محرک سے رائے طلب کی کیا آیا انکی قرارداد میں ترمیم کی جائے جس پر مولانا ہدایت الرحمن نے اجازت دے دی ۔ ارکان اسمبلی میر برکت علی رند، اصغر ترین، مجید بادینی، خیر جان بلوچ ،رحمت صالح بلوچ نے بھی قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ گوادر کے لیے یہ عمل 10سال پہلے ہونا چاہیے تھا گوادر عالمی شہر ہے لیکن وہ پینے کے پانی، نکاسی آب سمیت دیگر اہم مسائل آج بھی ہیں کابینہ فوری طور پر اس کی منظور ی دے ۔

جس پر بلوچستان اسمبلی نے گوادر کو میونسپل کارپوریشن کا درجہ دئیے جانے سے متعلق قرارداد منظور کرلی۔ اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے رکن سید ظفر علی آغا نے بلوچستان میں تعلیم کے شعبے کی بہتری کے حوالے سے قرارداد ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہاکہ تعلیم کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی کا ذریعہ ہوتی ہے اس پر قوم کی فکری اور شعوری بیداری کا انحصار ہوتا ہے۔

تعلیم کا مقصد فرد کی چینی، جسمانی اور اخلاقی تربیت تشکیل پاتا ہوتا ہے۔ تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور تعلیم کا مقصد ڈگری حاصل کرنا نہیں بلکہ اس کا مقصد انسانوں کو وسیع افق کے لئے تیار کرنا ہے۔ صوبہ میں میعاری اور اچھی تعلیم کے حصول کے لئے درج ذیل اقدامات کا اٹھایا جانا از حد ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ پورے صوبے میں ایک جیسا نظام تعلیم رائج ہو۔

اور کورس جامع اور آج کل کی ضرورت کے مطابق ہو۔ نیز کم از کم میٹرک تک تعلیم مفت ہو۔ امتحانات مقررہ وقت پر اور سخت نگرانی میں لئے جائیں۔ بوٹی مافیا کے رجحان نقل سفارش کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ ٹیچر ز کی تربیت کے لئے ایک جامع پروگرام مرتب کیا جائے۔ اساتذہ کا فقدان ایک بڑا مسئلہ ہے۔ لہذا ان تعلیمی مراکز جہاں پر اساتذہ کی کمی ان کو دیکھا جائے اور اسکے علاوہ ساز گار ماحول اور وہاں مختلف قسم مادی وسائل کی کمی کو پورا کیا جائے۔

کسی بھی سکول کے معیاری بننے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا تشخیصی نظام مستعد ہو اس میں ہر کلاس کے جائزے سے لے کر تمام ٹیسٹ اور امتحانات شامل ہیں۔ مسلسل اور جامع تشخیص کے ذریعے یہ دیکھا جائے کہ طلبائ نے سبق کو کتنا سمجھا اور انہوں نے موجودہ تعلیمی . مقاصد کو کتنا حاصل کیا۔ اصل میں کمزور بچوں کو آگے لانے کا mechanism جس اسکول میں ہوگا وہ ایک معیاری اسکول ہوگا۔

ہر اسکول میں ایک جائزہ کمیٹی ہو جو ان تمام امور کی حکمرانی کرے جس میں ہر 6 ماہ بعد اسکول کا جائزہ ہو جس میں تمام تعلیمی سرگرمیاں اور ہر ضلع میں تعلیم سے متعلق ایک شکایت ونگ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ جہاں پر لوگ محکمہ تعلیم سے متعلق شکایت درج کر سکیں۔لہذ اصو بہ میں تعلیم کی زبوں حالی کو مد نظر رکھ کر یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ مذکورہ بالا تجاویز پر فوری طور پر عمل درآمد کرانے کو یقینی بنائے۔

ارکان اسمبلی ڈاکٹر نواز کبزئی ، خیر جان بلوچ، اصغر علی ترین ، غلام دستگیر بادینی نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم بلوچستان کے لیے اہم ترین شعبہ ہے جس کی بہتری کے لیے ہر ممکن وسائل بروئے کار لائے جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ اہم ترین قرارداد پیش ہورہی ہے مگر وزیرتعلیم ایوان میں موجود نہیں ہیں کیا وزیرتعلیم نے آج تک کسی ضلع کا دورہ بھی کیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں اسکولوں کو کھولنے کے دعوے کیے جارہے ہیں مگر اسکولوں کی حالت زار پر توجہ نہیں ہے ۔ بعدازاں ایوان نے قرارداد کو منظور کرلیا ۔اجلاس میں نقطہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری عبدالمجید بادینی نے کہا کہ حکومت مختلف امدادی رقوم اور زکوة کو براہ راست مستحقین کے اکائونٹ میں منتقل کرے اس سے کرپشن کا خاتمہ ہوگا اور نادار افراد کو انکا حق ملے گا ۔ بعدازاں بلوچستان کا اجلاس 20اکتوبر تک ملتوی کردیا گیا ۔