20 سال گزرنے کے باوجود بھی سانحہ زلزلہ 2005 کے زخم مندمل نہ ہو سکے

پیر 6 اکتوبر 2025 18:58

20 سال گزرنے کے باوجود بھی سانحہ زلزلہ 2005 کے زخم مندمل نہ ہو سکے
مظفرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 اکتوبر2025ء) 20 سال گزرنے کے باوجود بھی سانحہ زلزلہ 2005 کے زخم مندمل نہ ہو سکے،لوگ آج بھی اپنے پیاروں کا یاد کر کے آنسو بہا رہے ہیں نہ ہی حکومت اور نہ ہی اداروں میں بہتری لائی جا سکی،تباہ حال انفراسٹرکچر اجتماعی بیحسی پر آج بھی نوحہ خواں ہیں۔کسی نے خوب کہا ہے کہ وقت کی سب بڑی خوبی اچھا ہو یا برا گزر جاتا ہے، سو وہ وقت بھی گزر گیا لیکن اس سانحہ میں بچھڑے لوگ آج بھی ہم وطنوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق اس قیامت خیز زلزلے سے 73ہزار افراد لقمہ اجل بنے تھے جس میں 20 ہزار بچے شامل تھے۔ ایک لاکھ پچاس ہزار شدید زخمی ہوئے تھے۔ 220000 بچے زلزلے سے براہ راست متاثر جبکہ 330000 افراد بے گھر ہوئے۔مجموعی طور پر28000 اسکوائر کلومیٹر کا علاقہ زلزلے کی زد میں آیا جس نے 400 گاؤں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔

(جاری ہے)

متاثرہ علاقوں میں 16ہزار اسکول اور 80 فیصد صحت کے مراکز مکمل طور پر تباہ ہوئے۔

ایک رپورٹ کے مطابق مظفرآباد میں جس میں 35 ہزار آٹھ سو تین افراد جاں بحق، 21ہزار 8 سو 66 افراد زخمی اور ایک ہزار 500 زخمی ہوئے۔ مظفر آباد میں ایک لاکھ 14 ہزار 410 مکانات تباہ ہوئے۔ ضلع باغ میں 19ہزار ایک سو 29 افراد جاں بحق 7 ہزار 4 سو اکیس افراد زخمی ہوئے، ضلع جہلم میں 407 افراد جاں بحق ایک ہزار پچیس زخمی، پلندری راولاکوٹ میں چار افراد جاں بحق ایک ہزار آٹھ سو زخمی، میر پور میں چھ جانیں ضائع ہوئیں تھیں۔

آزاد کشمیر کے چار اضلاع میں مجموعی طور پر 2 لاکھ 92 ہزار702 مکان تباہ ہوئے تھے، سرکاری اداروں میں زیادہ نقصان اسکول کالج اور یونیورسٹی کا ہوا تھا۔یادوں کے دریچوں کو وا کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات جن میں مسلم لیگ ن گوجرہ کے راہنما خورشید احمد قریشی،صدر انجمن تاجران مدینہ مارکیٹ راجا ابرار مصطفیٰ،آزاد امیدوار قانون ساز اسمبلی حلقہ لچھراٹ ندیم عالم اعوان،حلقہ 3 سٹی مظفرآباد ملک علاؤالدین،ڈاکٹر لطف الرحمن اعوان،میجر ریٹائرڈ گل زمان اعوان،شازیہ اعوان و دیگر کا کہنا تھاکہ بروز ہفتہ ماہ رمضان کا تیسرا دن تھا، ملک بھر کی طرح ملک کے بالائی علاقوں صوبہ خیبر پختون خوا اور آزاد کشمیرکے دور دراز دلکش پہاڑوں پر واقع آبادیاں جن میں بالا کوٹ، کاغان، بٹگرام، مانسہرہ، شانگلہ، گڑھی حبیب اللّٰہ? راولا کوٹ، مظفرآباد کے گردو نواح میں زندگی معمول کے مطابق شروع تھی۔

بچے جوان نوجوان اسکولوں کالجوں میں جبکہ دفاتر اور ادارے میں عملہ کام کا آغاز کرچکا تھا، گھریلوں خواتین خانہ داری میں مصروف اپنے پیاروں کے انتظار میں تھیں، سب کچھ پرسکون تھا۔سورج کے بلند ہوتے دھوپ تھوڑی اور تیز ہوئی، پھر گھڑی جیسے ہی صبح کے 8 بج کر 52 منٹ پر پہنچی تو گویا قیامت آگئی۔صوبہ پنجاب، خیبر پختون خوا اور آزادکشمیر میں زمین لرزنے لگی، معلوم ہوا زلزلہ ہے، زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر7 اعشاریہ 6 ریکارڈ کی گئی جس کے ڈیڑھ سے دو منٹ تک شدید جھٹکے محسوس کیے گئے تاہم اس کا مجموعی دورانیہ 6 منٹ آٹھ سیکنڈ تھا، زلزلے کا مرکز اسلام آباد سے 95 کلو میٹر دور تک اور ہزارہ ڈویژن تھا۔پلک جھپکتے ہی قیامت ٹوٹ پڑی اور اس کے زخم آج تک مندمل نہ ہو سکے ہیں۔