- قطر اور ترکی غزہ امن مذاکرات کے تیسرے دن میں شامل ہوں گے
- اسرائیل نے غزہ کی طرف جانے والے ایک اور امدادی فلوٹیلا کو روک لیا
قطر اور ترکی غزہ امن مذاکرات کے تیسرے دن میں شامل ہوں گے
قطر کے وزیر اعظم اور ترکی کے وفود بدھ کے روز مصر میں حماس اور اسرائیلی مذاکرات کاروں کے ساتھ تیسرے دن کے مذاکرات میں شامل ہوں گے، جن کا مقصد غزہ کی جنگ کا خاتمہ ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات ساحلی شہر شرم الشیخ میں ہو رہے ہیں، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے گزشتہ ماہ پیش کردہ 20 نکاتی منصوبے پر مبنی ہیں۔
صدر ٹرمپ نے منگل کو وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں صحافیوں سے کہا، ’’ہم کچھ کر سکتے ہیں، اس کا ایک حقیقی موقع ہے۔
(جاری ہے)
‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی مذاکرات کار بھی بات چیت میں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں مشرق وسطیٰ میں امن کا امکان موجود ہے۔ یہ غزہ کی صورتحال سے بھی آگے کی بات ہے۔ ہم یرغمالیوں کی فوری رہائی چاہتے ہیں۔‘‘
ڈونلڈ ٹرمپ
نے کہا کہ اگر حماس اور اسرائیل جنگ بندی پر متفق ہو جاتے ہیں تو امریکہ ’’ہر ممکن کوشش کرے گا تاکہ ہر کوئی معاہدے پر عمل کرے۔‘‘حماس کی طرف سے ضمانتوں کا مطالبہ
حماس کے اعلیٰ مذاکرات کار خلیل الحیہ نے کہا کہ وہ ’’صدر ٹرمپ اور اسپانسر ممالک سے یہ ضمانت چاہتے ہیں کہ جنگ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔
‘‘ٹرمپ
کا منصوبہ جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی، حماس کو غیر مسلح کرنے اور غزہ سے اسرائیل کی بتدریج فوجی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے۔اس منصوبے کو اسرائیل اور حماس دونوں کی طرف سے حمایت ملی ہے اور پیر سے مصر میں بالواسطہ مذاکرات جاری ہیں۔
حماس کی مذاکراتی ٹیم کے ایک قریبی ذریعے نے بتایا کہ منگل کے اجلاس میں حماس نے ’’اسرائیلی فریق کی طرف سے پیش کردہ فوجی انخلا کے ابتدائی نقشوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کے طریقہ کار اور ٹائم ٹیبل پر بات چیت کی۔
‘‘آج بدھ کو مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف بھی مذاکرات میں شامل ہوں گے۔
قطر
نے کہا ہے کہ اس کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن آل ثانی شرکت کریں گے، جبکہ ترکی کے سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا کہ ملک کے انٹیلیجنس چیف ابراہیم کالن مصر میں وفد کی قیادت کریں گے۔اسرائیل نے غزہ کی طرف جانے والے ایک اور امدادی فلوٹیلا کو روک لیا
اسرائیلی بحریہ نے غزہ کے لیے امداد لے جانے کی کوشش کرنے والے فلسطین نواز کارکنوں کے ایک اور فلوٹیلا کو روک لیا ہے۔
دوسری جانب ترکی نے غزہ فلوٹیلا میں شامل کشتیوں کی روک تھام کو ’’قزاقی‘‘ قرار دیا ہے۔ترکی نے بدھ کے روز اسرائیلی افواج کی طرف سے غزہ کے لیے امداد پہنچانے کی کوشش کرنے والے فلوٹیلا کے خلاف مداخلت کو ’’قزاقی‘‘ اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ فریڈم فلوٹیلا کے خلاف مداخلت، جس میں ترک شہری اور اراکین پارلیمنٹ بھی شامل ہیں، سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’نسل کشی‘‘ کرنے والی اسرائیلی حکومت تمام پرامن اقدامات کو نشانہ بناتی ہے اور خطے میں کشیدگی کو بڑھاتی ہے۔
فریڈم فلوٹیلا کولیشن نے سوشل میڈیا پر کہا کہ تقریباً 30 ممالک سے تعلق رکھنے والے 150 کے قریب کارکنوں کو لے جانے والے نو بحری جہازوں کو بدھ کی صبح غزہ کے ساحل سے تقریباً 220 کلومیٹر دور روک لیا گیا۔
اس گروپ نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ اسرائیلی بحری افواج نے جہازوں پر ’’حملہ کیا اور انہیں غیر قانونی طور پر روک لیا۔‘‘
اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس روک تھام کی تصدیق کرتے ہوئے اسے ’’قانونی بحری ناکہ بندی کو توڑنے اور جنگی زون میں داخل ہونے کی ایک اور ناکام کوشش‘‘ قرار دیا ہے۔