بلوچستان ہائی کورٹ نے چیف سیکریٹری بلوچستان اور وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری کو شوکاز نوٹس جاری کر دیے

بدھ 8 اکتوبر 2025 19:55

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 اکتوبر2025ء) چیف جسٹس عدالت عالیہ بلوچستان جسٹس روزی خان بڑیچ اور جسٹس سردار احمد حلیمی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے صوبے میں کیسکو کی جانب سے بلاجواز لوڈشیڈنگ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف سیکریٹری بلوچستان اور وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری کو شوکاز نوٹس جاری کر دیے۔

یہ آئینی درخواست وائس چیئرمین بلوچستان بار کونسل ایڈوکیٹ راجب خان بلیدی کی جانب سے چیف ایگزیکٹو آفیسر کیسکو و دیگر کے خلاف دائر کی گئی تھی۔ سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے چیف سیکریٹری، وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری اور سیکریٹری توانائی کی جانب سے جمع کروائے گئے جوابات عدالت میں پیش کیے، تاہم عدالت نے ان جوابات کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ذمہ داران نے معاملے کا بوجھ محض نیپرا پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

(جاری ہے)

درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ کیسکو کی رپورٹ محض اعداد و شمار کا کھیل ہے جو زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ان کے مطابق، صوبے میں تقریباً 6 لاکھ 13 ہزار 522 فعال صارفین بجلی استعمال کر رہے ہیں، مگر بیشتر اضلاع میں روزانہ صرف 2 سے 3 گھنٹے بجلی فراہم کی جا رہی ہے جبکہ کوئٹہ شہر کے علاوہ 18 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے، جو کیسکو کی انتہائی نااہلی کو ظاہر کرتا ہے۔

وکیل نے عدالت کو بتایا کہ باقاعدگی سے بل ادا کرنے والے صارفین کو بھی بجلی سے محروم رکھا جا رہا ہے، جبکہ غیر قانونی کنکشنز اور نادہندگان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں لائن لاسز کو بلاجواز حد تک بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے، جس سے شہریوں کے آئینی حقوق، خصوصاً آرٹیکل 9 اور 25 کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیسکو کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ غیر شفاف اور نامکمل ہے، جس میں غیر قانونی صارفین کے خلاف کی گئی کارروائی یا موصول شدہ شکایات کا کوئی واضح ذکر موجود نہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ نادہندگان کے اعمال کی سزا بل ادا کرنے والے صارفین کو نہیں دی جا سکتی۔ مزید برآں عدالت نے ہدایت کی کہ نیپرا اور کیسکو کوئٹہ سمیت صوبے کے تمام اضلاع، شہروں اور دیہات میں بجلی کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنائیں، اور ان علاقوں تک بھی بجلی پہنچائیں جو تاحال محروم ہیں۔

عدالت نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ٹیوب ویل سولرائزیشن پالیسی کے تحت بغیر نوٹس متعدد دیہاتوں کے کنکشن منقطع کرنا غیر قانونی اقدام ہے۔ عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پچھلی سماعت پر چیف سیکریٹری اور وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری کو وفاقی حکومت کے ساتھ لوڈشیڈنگ کے مسئلے کے حل کے لیے واضح ہدایات دی گئی تھیں، مگر نہ تو کوئی پیش رفت ہوئی اور نہ ہی وہ عدالت میں پیش ہوئے۔

اس پر عدالت نے دونوں افسران کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت دی کہ وہ وضاحت پیش کریں کہ ان کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کیوں نہ کی جائے۔ مزید یہ کہ عدالت نے انہیں ہدایت کی کہ وہ وفاقی حکومت کے ساتھ مشاورت کر کے لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور بجلی کی منقطع فراہمی کے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کریں اور جامع رپورٹ کے ساتھ آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں عدالت کے روبرو پیش ہوں۔ عدالت نے اپنے حکم نامے کی نقول ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان، ڈپٹی اٹارنی جنرل، چیف سیکریٹری بلوچستان، پرنسپل سیکریٹری وزیراعلیٰ بلوچستان، چیئرمین واپڈا، چیئرمین نیپرا اور دیگر متعلقہ حکام کو ارسال کرنے کی ہدایت دی۔ کیس کی اگلی سماعت 28 اکتوبر 2025 کو مقرر کر دی گئی ہے۔