خلیجی ممالک عالمی ٹیکنالوجی کا مرکز بننے کے اہل ہیں، ڈیجیٹل کوآپریشن آرگنائزیشن

ہفتہ 11 اکتوبر 2025 13:05

ریاض (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 اکتوبر2025ء) ڈیجیٹل کوآپریشن آرگنائزیشن کے سیکرٹری جنرل دیمۃ الیحییٰ نے کہا ہے کہ خلیجی ممالک عالمی ٹیکنالوجی کا مرکز بننے کے اہل ہیں۔ العربیہ کے مطابق ڈیجیٹل کوآپریشن آرگنائزیشن کے سیکرٹری جنرل دیمۃ الیحییٰ نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو ایک خصوصی انٹرویو دیا جس میں انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ خلیجی ممالک غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہیں اور یہ صلاحیتیں انہیں عالمی ٹیکنالوجی کا مرکز بننے کے اہل بناتی ہیں۔

دیمۃ الیحییٰ نے تین عناصر کی فہرست دی جو خلیجی ممالک کو ڈیجیٹل دوڑ میں سب سے آگے رکھتے ہیں جو خلیجی ممالک کے سٹریٹجک جغرافیائی محل وقوع سے مجسم ہیں۔ خلیجی ممالک تین براعظموں کو ملانے والا ایک مرکز ہیں۔

(جاری ہے)

خلیجی ممالک کی 75 فیصد سے زیادہ آبادی ایسے نوجوانوں پر مشتمل ہے جو سیکھنے اور ٹیکنالوجی کا شوق رکھتے ہیں، تیسرا خلیجی خودمختار دولت فنڈز ہیں جو سرمایہ کاری کی ترقی کا انجن ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آرگنائزیشن فی الحال ایک ٹھوس ڈیجیٹل انفراسٹرکچر بنا رہی ہے جو نوجوانوں اور اختراع کاروں کو تکنیکی طور پر خود کفالت حاصل کرنے اور عالمی ڈیجیٹل معیشت کے مستقبل کی تشکیل میں کردار ادا کرنے کے قابل بنا رہی ہے۔ آرگنائزیشن کی بنیاد 2020 میں نو رکن ممالک نے رکھی تھی جن میں بحرین، اردن، کویت، مراکش، نائیجیریا، عمان، پاکستان، سعودی عرب اور روانڈا ہیں۔

تنظیم کی ویب سائٹ کے مطابق تنظیم کا مشن ڈیجیٹل معیشت میں ترقی کو تیز کرنے، زیادہ سے زیادہ خوشحالی حاصل کرنے اور مشترکہ مفادات اور اشتراکی ڈیجیٹل تبدیلی کو فروغ دینے کے لیے خواتین، نوجوانوں اور کاروباری افراد کو بااختیار بنانا ہے۔اسی تناظر میں ڈیجیٹل کوآپریشن آرگنائزیشن کے سیکرٹری جنرل دیمۃ الیحییٰ نے میڈیا اور ڈیجیٹل ڈس انفارمیشن کے خطرات سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکنالوجی تنازعات پیدا کرنے، شکوک کے بیج بونے اور غلط معلومات پھیلانے کے لیے استعمال ہونے والا آلہ بن چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جدید سفارت کاری اب صرف روایتی سیاست تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں ٹیکنالوجیکل ڈپلومیسی شامل ہوگئی ہے جو سفارت کاروں اور تکنیکی ماہرین کو ایک میز پر اکٹھا کرتی ہے۔دریں اثنا سکریٹری جنرل نے کویت میں سعود الناصر ڈپلومیٹک انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ’’ ٹیکنالوجیکل ڈپلومیسی ‘‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک سمپوزیم میں اپنی پیشکش کے بعد حکومتوں اور بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے درمیان رابطے کے پُل بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا یہ رابطے کے پل بعض اوقات ممالک کی معیشتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان کمپنیوں کے ساتھ شعوری سفارتی انداز میں مشغول ہونا چاہیے اور جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل معیشت کی حکمرانی میں فعال طور پر حصہ لینا چاہیے۔ واضح رہے خلیجی ریاستوں کی جانب سے مصنوعی ذہانت میں سرمایہ کاری کا حجم حالیہ برسوں میں دسیوں ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ خلیج تعاون کونسل کے مطابق خلیجی ریاستیں اس وقت اس سرمایہ کاری کو دوگنا کرکے 2030 تک سینکڑوں بلین تک کرنے کے بڑے عملی منصوبے اپنا رہی ہیں۔