دنیا میں تبدیلی کی فصل اگاتے ’خوراک کے سورما‘

یو این جمعرات 16 اکتوبر 2025 20:00

دنیا میں تبدیلی کی فصل اگاتے ’خوراک کے سورما‘

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 اکتوبر 2025ء) اقوام متحدہ کا ادارہ خوراک وزراعت (ایف اے او) دنیا بھر میں مقامی سطح پر خوراک کے نظام کو بہتر بنانے میں مصروف افراد کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں کئی طرح کی ضروری مدد فراہم کر رہا ہے۔

خوراک کا عالمی دن ہر سال 16 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن سے قبل ایسے افراد کی داستانیں ایک ایسی عالمگیر تحریک کی عکاسی کرتی ہیں جو صحت مند اور منصفانہ زرعی و غذائی نظام کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے۔

مڈغاسکر: راسونیاویانا کلیریٹ

زکینی کی فصل سے مجھے پچاس کلوگرام پیداوار ملی۔ میں نے اس کا نصف حصہ اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات کے لیے فروخت کیا اور باقی نصف گھر میں استعمال ہونے والی خوراک کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا۔

(جاری ہے)

© FAO

جنوب مشرقی مڈغاسکر کے علاقے میزیلو میں راسونیاویانا کلیریٹ تبدیلی لانے والی رہنما کے طور پر سامنے آئی ہیں۔

اس سے پہلے وہ ایک گھریلو خاتون تھیں تاہم آج وہ خواتین کی قیادت میں قائم زرعی تربیتی مرکز کی سربراہ ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مزاحمت پر مبنی کاشتکاری کے ذریعے بچوں میں غذائی قلت کے مسئلے سے نمٹ رہا ہے۔ کلیریٹ اور ان کے ساتھ کام کرنے والی 24 خواتین مورنگا اور کدو جیسی غذائیت سے بھرپور فصلیں اگانے کے لیے جدید زرعی طریقے اپنا رہی ہیں۔

اس سے نہ صرف پیداوار میں اضافہ ہوا ہے بلکہ غذائی نظام میں تنوع بھی آیا ہے اور غذائی تحفظ کی صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد ملی ہے۔ کلیریٹ کا قائدانہ کردار بھوک اور غذائی قلت سے متاثرہ اس خطے میں امید اور مزاحمت کی علامت بن گیا ہے۔

کرغیزستان: میدربیک مرزائیوو

پانی کی قلت کے باعث یہاں پہلے کچھ نہیں اگتا تھا۔ لیکن ہم نے ایک کنواں کھودا، آبپاشی کا نظام بنایا اور اب یہ زمین زرخیز ہو گئی ہے۔

© FAO

کرغزستان کے علاقے بٹکن میں میدربیک مرزائیوو سوویت دور کی ترک شدہ زرعی زمینوں پر ایک مرتبہ پھر انگور کی بیلیں کاشت کر رہے ہیں۔

2025 میں انہوں نے دیہاتیوں کو متحد کر کے انگور اور خوبانی کے پودے لگانے کی مہم شروع کی۔ ابتدائی شکوک وشبقات کے باوجود اب یہ اشتراکی تنظیم دو ہیکٹر زمین پر کاشت کر رہی ہے اور مزید توسیع کا منصوبہ رکھتی ہے۔ ان کی کامیابی سے دوسرے کاشتکاروں کی بھی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے کہ وہ غیر استعمال شدہ زمینوں کو دوبارہ قابل کاشت بنایئں۔ اس کی بدولت ایک ایسے خطے میں نامیاتی زراعت اور مقامی مزاحمتی قوت میں اضافہ ہو رہا ہے جسے کبھی بنجرسمجھا جاتا تھا۔

موریطانیہ: فاطمہ محمد المسلمین

اونٹ ہمارے بہترین جانوروں میں سے ایک ہے۔ خانہ بدوشی کے زمانے میں یہ بھاری بوجھ اٹھانے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ اونٹ جس قدر پیاس اور مشقت برداشت کرتے تھے وہ کوئی دوسرا جانور نہیں کر سکتا تھا۔

© FAO

موریطانیہ کے بنجر گاؤں بوتیدوما میں اونٹ کا دودھ غذائیت کا بنیادی ذریعہ ہے۔

مقامی زبان میں اسے 'لبن' کہا جاتا ہے۔ فاطمہ محمد زاید المسلمین پانچ بچوں کی ماں اور تیدوما اشتراکیہ تنظیم کی بانی ہیں۔ انہوں نے دودھ کی مقامی پیداوار میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ 2019 سے فراہم کی جانے والی تربیت کے نتیجے میں اب دودھ کو اس طرح سے محفوظ کیا جاتا ہے کہ اس کی مدت استعمال ایک دن سے بڑھ کر اکیس دن تک ہو گئی ہے۔ اس سے دودھ کے ضیاع میں کمی اور منڈی تک رسائی میں اضافہ ہوا ہے۔

یہ اشتراک دیہی خواتین کو بااختیار بنا رہا ہے، غذائی تنوع کو فروغ دے رہا ہے اور غذائی تحفظ بھی قائم کر رہا ہے۔ اب فاطمہ کا خواب ہے کہ وہ اس اشتراک کو ایک مکمل ڈیری صنعت کی صورت میں وسعت دیں۔

سینٹ کٹس اینڈ نیوس: رچرڈ پیریس

مجھے زراعت کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ بس یہ میرا ایک خواب تھا۔ اب اتوار کے دن جب زیادہ تر لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں تو میں 'پی ایچ' کی سطح درست کر رہا ہوتا ہوں اور سینسر دوبارہ ترتیب دے رہا ہوتا ہوں۔

© FAO

غرب الہند کے جزائر سینٹ کٹس اینڈ نیوس میں رچرڈ پیریس اپنے 'پیریس لیفی گرینز' نامی کاروبار سے مقامی زراعت کا نقشہ بدل رہے ہیں۔

یہ پانی میں اُگائے جانے والے (ہائیڈروپونک لیٹَس) سلاد کے پتوں کا کاروبار ہے۔ رچرڈ اس سے پہلے ایک تعمیراتی ماہر اور ہوٹل مینیجر تھے۔ انہوں نے 2019 میں جزائر میں بڑے پیمانے پر پہلا ہائیڈروپونک گرین ہاؤس تعمیر کیا۔ ان کے تازہ اور دیرپا لیٹَس تیزی سے مقبول ہوئے۔ تربیت حاصل کرنے کے بعد انہوں نے سمارٹ سینسرز کے استعمال سے پیداوار میں 40 فی صد تک اضافہ کیا۔

اب وہ دوسرا گرین ہاؤس تعمیر کر کے اس کاروبار کی توسیع کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد درآمدات میں کمی لانا اور پائیدار زراعت کو فروغ دینا ہے۔

اٹلی: کرسٹینا باؤرمین

باورچی بھی تبدیلی کے محرک بن سکتے ہیں۔ موسمی اجناس کو ترجیح دے کر اور کاشتکاروں کی قدر کرتے ہوئے وسائل کے عدم ضیاع کے اصول پر کام کر کے وہ مضبوط اور پائیدار غذائی نظام تشکیل دینے میں مدد دینے کے ساتھ کھانے والوں کو بھی یہی تحریک دے سکتے ہیں۔

© FAO

اٹلی کے دارالحکومت روم میں مقیم مشیلن سٹار شیف کرسٹینا باؤرمین پائیدار فن طباخی میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔

وہ طباخی میں جدت لا کر خوراک کے ضیاع کے خلاف آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کے 'اپنائیں ایک کسان' اور 'باورچی کا منشور' جیسے منصوبے ذمہ دارانہ خریداری اور کھانے کے عد، ضیاع کو فروغ دیتے ہیں۔ وہ نئے باورچیوں کی تربیت بھی کرتی ہیں اور خوراک کو ماحولیاتی اقدام، غذائیت اور انسانی وقار کے ایک اہم وسیلے کے طور پر پیش کرتی ہیں تاکہ دنیا بھر میں پائیدار اور منصفانہ غذائی نظام فروغ پا سکے۔