1.2ارب ڈالرکی قسط ملنے سے زر مبادلہ کے ذخائر مستحکم ہوں گے،میاں زاہدحسین

ناکام سرکاری اداروں کی نجکاری کے بغیر پائیدار معاشی استحکام ناممکن ہے،صدر کراچی انڈسٹریل الائنس

جمعہ 17 اکتوبر 2025 22:47

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 اکتوبر2025ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچوئلزفورم اورآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، نیشنل بزنس گروپ پاکستان اورایف پی سی سی آئی کی پالیسی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین، سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کے ساتھ اسٹاف لیول ایگریمنٹ کے اعلان پر اطمینان کا اظہارکیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ پاکستان کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی کے دوسرے اور ریزیلینس سسٹینبلٹی فیسلٹی آرایس ایف کے پہلے جائزے کی کامیاب تکمیل ہے، جس کے نتیجے میں مجموعی طورپر پاکستان کو1.2 ارب ڈالرکی قسط جاری ہوگی۔میاں زاہد حسین نے اس کامیابی پروزیرخزانہ محمد اورنگزیب خان اوران کی معاشی ٹیم کومبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ اسٹاف لیول ایگریمنٹ پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے مشکل سٹرکچرل اقدامات کا اعتراف ہے۔

(جاری ہے)

یہ صرف مالی امداد نہیں بلکہ عالمی مالیاتی منڈیوں اور دوطرفہ شراکت داروں کے اعتماد کی ایک اہم علامت ہے۔میاں زاہد حسین نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے کئی مثبت معاشی اشاریوں کوسراہا ہے، جن میں اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر کا 14.44 ارب ڈالرتک پہنچ جانا، مالیاتی استحکام کے اہداف سے بہتر کارکردگی اور 14 سال بعد کرنٹ اکانٹق سرپلس شامل ہیں۔

تاہم انہوں نے متنبہ کیا کہ یہ استحکام ابھی کمزورہے اور یہ معاہدہ منزل نہیں بلکہ ایک نئے اورزیادہ مشکل سفرکا آغازہے۔میاں زاہد حسین نے کہا کہ کاروباری برادری جانتی ہے کہ یہ معاہدہ نئی سخت شرائط کے ساتھ منسلک ہے۔ حکومت کے لیے مالی سال 2026 کے بجٹ میں 1.6 فیصد جی ڈی پی کا پرائمری سرپلس حاصل کرنا ایک کڑا امتحان ہوگا۔ یہ ہدف صرف اسی صورت ممکن ہے جب ٹیکس نیٹ کووسیع کیا جائے نہ کہ موجودہ ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالا جائے۔

میاں زاہد حسین نے توانائی کے شعبے کوسب سے بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے بروقت ٹیرف ایڈجسٹمنٹس پرزوردینا قابل فہم ہے، مگریہ دیرپا حل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ گردشی قرض کا مستقل خاتمہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں (DISCOs) میں منظم اصلاحات کی جائیں اورخسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں (SOEs) کی فوری نجکاری کی جائے۔

انہوں نے بیرونی تجارت کے تازہ اعداد وشمارپرتشویش ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ کرنٹ اکانٹ سرپلس میں ہے، مگرستمبر2025 میں تجارتی خسارہ 3.4 ارب ڈالررہا، جہاں درآمدات 5.9 ارب ڈالراور برآمدات صرف 2.5 ارب ڈالررہیں۔ یہ ظاہرکرتا ہے کہ ہماری معاشی بہتری ابھی بھی درآمدات کو روکنے پرمبنی ہے، برآمدی فروغ پرنہیں۔میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ حکومت کو اس 1.2 ارب ڈالرکی سہولت سے حاصل ہونے والی گنجائش کودیرینہ اسٹرکچرل اصلاحات کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ نجکاری کا عمل تیزکیا جائے، پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا جائے اور پاکستان کو حقیقی طورپربرآمدی معیشت کی جانب گامزن کیا جائے۔