برازیل ،سپریم کورٹ نے بلا اجازت سوانح عمریوں کی اشاعت پر عائد پابندی ختم کردی

جمعہ 12 جون 2015 08:50

برازیلیا(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔12 جون۔2015ء)برازیل کی سپریم کورٹ نے گزشتہ روز بلا اجازت سوانح عمریوں کی اشاعت پر عائد پابندی ختم کردی جو کہ کافی عرصے سے ایک طرف ادیبوں اور صحافیوں کے درمیان اور دوسری جانب سے موسیقی کے فنکاروں کے درمیان زبردست بحث کا موضوع بنی ہو ئی تھی۔فیڈرل سپریم کورٹ کے جسٹس صاحبان نے یہ فیصلہ متفقہ طورپر منظور کیا ہے، عدالت کے ڈپٹی چیف جسٹس کریمین لوسیا اینٹنونس نے کہا کہ انہوں نے اس پابندی کو آزادی اظہار رائے ، فن کارانہ تخلیق اور سائنٹیفک سوچ کے بنیادی حقوق کے ضمن میں غیرآئینی خیال کیا ہے۔

یہ تنازعہ 2007ء میں اس وقت شروع ہوا جب برازیل کی موسیقی کے شہنشاہ ”اوریائی“روبرٹو کارلوس نے وہ حکم جیت لیا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا ، ان کی زندگی کے بارے میں بلا اجازت کتاب کو طاقوں سے ہٹا لیا جائے ۔

(جاری ہے)

اس نے یہ حکم سول کورٹ کی اس توجیع کا حوالہ دیتے ہوئے حاصل کیا جس میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص یا عورت یہ خیال کرتی ہے کہ اس کی زندگی کی تصاویر یا تحریروں کی تشہیر ان کے وقار کی خلاف ورزی ہے تو وہ اس کی تشہیر کی ممانعت کرسکتا ہے ۔

تاہم گزشتہ روز عدالت نے سول کورٹ کی دو شقوں کی دوبارہ توجیع کی جس کے نتیجے میں کارلوس اور جلبرٹو گل سمیت برازیلین موسیقی کے دوبڑے ناموں میں سے بعض کے احتجاج کے باوجود اس پابندی کو ختم کردیا گیا ۔مخالفین نے اس پابندی کو 1964ء سے 1995ء تک برازیل میں فوجی اقتدار کے ایام میں سنسر شپ کی قسم سے تعبیر کیا تھا ۔جریدہ استادوڈو سالوپاؤ کے مطابق گل نے اس امر پر اصرارکیا کہ سوانح عمری میں متعلقہ شخص کے اس کی رازداری کا تحفظ کیا جانا چاہیے ، ایسا اشاعت کی منصوبہ بندی کے دور سے بھی کیا جانا چاہیے، انہوں نے مزید کہاکہ دو قسم کے حقوق ہیں ، ایک تقریر کی آزادی اور دوسرا راز داری کی آزادی اور ان دونوں کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔

تاہم جج روسا ویبر نے کہا کہ سوانح عمریوں کو کنٹرول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی تاریخ کو کنٹرول کرنا چاہیے ۔جسٹس کریمین لوسیا، جیسا کہ وہ عام طور پر مشہور ہے ، زیادہ پرجوش تھی ۔ اس نے کہا کہ برازیل کے دور میں کوئی سنسرشپ نہیں ہے۔

متعلقہ عنوان :