ترک اسمبلی میں ایک ہفتے شدید بحث کے بعد تین ترامیم منظور کرلی گئیں

رجب طیب اردگان ترامیم منظور کروا کر اکیلے حکمران بننا چاہتے ہیں، حزب اختلاف کی شدید تنقید و مخالفت منظوری کے بعد صدارتی انتخابات 4 کے بجائے 5 سال بعد ، رکن پارلیمنٹ کی کم سے کم عمر 25 کے بجائے 18سال ہوجائے گی

جمعہ 13 جنوری 2017 13:55

انقرہ( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔13جنوری۔2017ء) ترکی کی قومی اسمبلی نے ایک ہفتے تک شدید بحث کا موضوع بننے والی آئین کی تین ترامیم باالاخر منظور کرلیں، ترامیم کی منظوری کے بعد صدارتی انتخابات 4 کے بجائے 5 سال بعد جبکہ رکن پارلیمنٹ کی کم سے کم عمر 25 کے بجائے 18سال ہوجائے گی۔ آئینی ترامیم کی منظوری کے وقت ترکی کی اسمبلی مچھلی بازار کا منظر پیش کررہی تھی ، جبکہ حکومت اور حزب اختلاف کے اراکین کے درمیان ہاتھاپائی بھی ہوئی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق آئین میں ترامیم کی منظوری کے بعد نئے آئین کی منظوری کے لیے عوامی ریفرنڈم کی راہ بھی ہموار ہوگئی، اب رواں برس اپریل میں ریفرنڈم منعقد کیے جانے کی امید ہے۔منظور کی گئی آئینیترامیم کے تحت اب پارلیمنٹ کے ممبر بننے کے لیے عمر کی کم سے کم حد 18 برس ہوگی، جبکہ پہلے قومی اسمبلی کا رکن بننے کے لیے کم سے کم عمر 25 سال مقرر تھی۔

(جاری ہے)

ترکی کے سرکاری نشریاتی ادارے کے مطابق منظور کی گئی آئین کی تیسری شق کے تحت کوئی بھی فوجی پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکے گا، اس ترمیم کے حق میں 341ووٹ پڑے جب کہ منظور کی گئی چوتھی شق کے حق میں بھی 343 امیدواروں نے ووٹ دیئے۔منظور کی گئی چوتھی شق کے تحت قومی اسمبلی کے انتخابات سمیت صدارتی انتخابات بھی اب 4 کے بجائے 5 سال کے عرصے میں ہوں گے۔

قومی اسمبلی سے اکثریت سے پاس کی گئی آئین کی شق نمبر 5 کے حق میں 343 جب کہ مخالفت میں صرف 7 ممبرز نے ووٹ ڈالے، اس ترمیم کے تحت قومی اسمبلی کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے۔منظور کی گئی شق نمبر 5 کے مطابق قومی اسمبلی اب قانون پیش کرنے، تبدیل یا معطل کرنے سمیت بجٹ پر بحث کرنے، نوٹ چھاپنے اور جنگ کے فیصلوں،عالمی معاہدوں سے متعلق فیصلوں کی منظوری دینے سمیت دیگر اہم فیصلوں کی منظوری دے سکے گی۔

خبر رساں ادارے کے مطابق آئین میں ترامیم کی منظوری کے وقت حزب اختلاف کے اراکین کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا، مقامی ٹی وی پر دکھائے جانے والی تصاویر میں ممبران کو ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہوتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔حزب اختلاف کے ارکان نے آئینی ترامیم کو صدر رجب طیب اردگان کی خواہشات قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان ترامیم سے وہ ملک کے اکیلے حکمران بننا چاہتے ہیں، جب کہ حکومتی ارکان کا کہنا تھا کہ ان ترامیم سے ترکی کی حکومت فرانس اور امریکا کی حکومت کی طرح زیادہ مضبوط اور موٴثر ہوگی۔

خیال رہے کہ اس سے پہلی بھی ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کو اختیارات کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، رجب طیب اردگان پہلے 10 سالوں تک ملک کے وزیر اعظم اور اب صدارتی عہدے پر براجمان ہیں۔