الیکشن کمیشن کی امیدواروں سے پارٹی فنڈ لینے پر پابندی کی تجویز۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے کسی بھی امیدوار کو ٹکٹ دینے کے لیے کسی بھی طرح سے فنڈنگ کے نام پر رقم وصول نہیں کر سکتی ،ْمسودہ تیار

سیاسی جماعتوں کو خواتین کے الیکشن میں حصہ لینے اور اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے حوالے سے ان کی حوصلہ افزائی بھی کرنی ہوگی ،ْضابطہ اخلاق

اتوار 27 مئی 2018 14:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ اتوار 27 مئی 2018ء)الیکشن کمیشن پاکستان نے عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے امیدواروں سے پارٹی کو فنڈنگ وصول کرنے سے روکنے کے لیے تجویز پیش کردی۔میڈیا رپورٹ کے مطابق ای سی پی کی جانب سے آئندہ انتخابات سے قبل ایک ضابطہ اخلاق کا مسودہ ترتیب دیا گیا ہے جس میں کہا گیا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے کسی بھی امیدوار کو ٹکٹ دینے کے لیے کسی بھی طرح سے فنڈنگ کے نام پر رقم وصول نہیں کر سکتی۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن 31 مئی کو پارلیمانی جماعتوں کے مشاورتی اجلاس میں اس معاملے پر بات کرے گا۔خیال رہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں اپنے امید واروں سے ’درخواست فیس‘ کے نام پر رقوم وصول کرکے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انہیں ٹکٹ جاری کرتی ہیں، تاہم امید وار کے کاغذاتِ نامزدگی منظور یا مسترد، خواہ کسی بھی صورت میں یہ فیس قابلِ واپسی نہیں ہوتی اور یہ پارٹی فنڈ میں چلی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

یہ بات سامنے نہیں آئی کہ سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی اس شق کے حوالے سے کس طرح ردِ عمل دیں گی، خصوصی طور پر وہ سیاسی جماعتیں جو ٹکٹ کے نام پر فنڈز جمع کرتی ہیں، تاہم یہ خیال کیا جارہا ہے کہ اگر یہ شق حتمی ضابطہ اخلاق میں شامل ہوجاتی ہے تو پھر سیاسی جماعتوں کو اپنے امیدواروں کی رقم ممکنہ طور پر واپس کرنی ہوگی۔الیکشن کمیشن کے اس تجویز کردہ ضابطہ اخلاق کے مطابق ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر اور ریٹرننگ افسر کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ضلعی اور مقامی انتظامیہ، پولیس یا پھر دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے اپنی قانونی حدود کے اندر اس ضابطہ اخلاق کو نافذ کریں گے۔

علاوہ ازیں اگر کوئی بھی سیاسی جماعت یا پھر اس کا امید وار اس ضابطہ اخلاق کی خلاف وزری کا مرتکب پایا گیا تو اس کے اس عمل کو بدعنوانی کے مترادف قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی اور اسے نااہل قرار دیا جائے گا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے کامیاب انعقاد اور اس دوران امن و امان برقرار رکھنے سے متعلق وقتاً فوقتاً سامنے آنے والی ہدایات اور قواعد و ضوابط کی پاسداری سیاسی جماعتوں، امیدواروں اور الیکشن ایجنٹس پر لازمی ہوگی، تاہم قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی صورت میں ان کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی بھی کی جاسکتی ہے۔

ای سی پی کے ضابطہ اخلاق کے مطابق سیاسی جماعتیں، امیدوار، الیکشن ایجنٹس ان کے حامی یا پھر کوئی بھی شخص کسی مرد، عورت یا خواجہ سرا کو الیکشن میں حصہ لینے یا پھر اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے روکنے کے لیے کسی بھی طرح کے انتظام یا معاہدے کا رسمی یا غیر رسمی طور پر حصہ بنا تو اسے بدعنوانی تصور کیا جائے گا۔ سیاسی جماعتوں کو خواتین کے الیکشن میں حصہ لینے اور اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے حوالے سے ان کی حوصلہ افزائی بھی کرنی ہوگی۔

سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو کسی بھی سرکاری افسر یا ملازم سے کسی بھی طرح کی حمایت یا پھر اس کی انتخابی مہم میں مدد حاصل کرنے کا اختیار نہیں ہوگا، اور اس کی خلاف ورزی کو قانون کے خلاف تصور کیا جائے گا۔سیاسی جماعتوں کے امیدوار یا پھر پولیٹیکل ایجنٹس کو خود کو ان کے حامیوں کی جانب سے بیلٹ پیپر خراب کرنے یا اس پر نشان لگانے کے عمل سے دور رکھنا ہوگا، ورنہ اس کو خلاف قانون قرار دیا جائے گا۔

ای سی پی کے مطابق صدر، نگراں وزیرِاعظم، نگراں وزرائے اعلیٰ اور ان کی کابینہ کے اراکین سرکاری افسران کی فہرست میں شامل ہوں گے، لہٰذا ان پر الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی ہوگی۔کسی بھی سیاسی جماعت کو قومی خزانے سے کسی بھی طرح کی تشہیری مہم چلانے کی اجازت نہیں ہوگی، جبکہ الیکشن مہم کے دوران کسی بھی طرح سے ذرائع ابلاغ کے غلط استعمال کرنے پر پابندی ہوگی ،ْاس کے علاوہ بینرز، بل بورڈز یا پھر وال چاکنگ پر مکمل طور پر پابندی ہوگی، اور اس کی خلاف ورزی کی صورت میں قانونی کارروائی کی جائے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں یا امیدواروں یا پھر ان کے ایجنٹس کو اس بات کو یقین بنانا ہوگا کہ وہ جلسہ عام کے دوران ایسی اشیاء اپنے ساتھ نہ رکھیں جن کی مدد سے ہجوم کے مشتعل ہونے کی صورت میں اس میں موجود ناپسندید عناصر انہیں استعمال کرکے قومی املاک کو نقصان پہنچا سکیں۔ای سی پی کے ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ سیاسی مخالفین کے پتلے جلانے کی بھی اجازت نہیں دی جائے گی۔