Parkinson's - Burhape Ki Alamat Ya Bimari - Article No. 2959

Parkinson's - Burhape Ki Alamat Ya Bimari

رعشہ ۔ بڑھاپے کی علامت یا بیماری - تحریر نمبر 2959

اس بیماری کا کوئی مستقل و دائمی علاج نہیں، مگر مریض مناسب علاج اور دیکھ بھال کی بدولت موٴثر زندگی گزار سکتے ہیں

پیر 5 مئی 2025

پروفیسر ڈاکٹر عبدالمالک
عام طور پر پاکستان میں بیماریوں کے متعلق خود ساختہ ذہنی توہمات پائے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے ان کے علاج اور نگہداشت میں کوتاہی برتی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں مرض بڑھ جاتا ہے۔رعشہ یا پارکنسنز بھی ایسی ہی بیماریوں میں سے ایک ہے، جسے بیماری نہیں سمجھا جاتا ہے، بلکہ اس کو بڑھاپے کے ساتھ جوڑ کر تشخیص، علاج اور نگہداشت پر توجہ نہیں دی جاتی ہے۔
یوں یہ مرض پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
رعشہ ایک اعصابی مرض ہے، جس میں دماغ میں ڈوپامین (Dopamine) بنانے والے خلیات رفتہ رفتہ ناکارہ ہو جاتے ہیں۔چونکہ ڈوپامین جسم کی حرکات و سکنات کے لئے بنیادی جزو اور اہمیت کا حامل کیمیکل ہے، لہٰذا اس کی کمی کی صورت میں مختلف علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

اس حقیقت کو بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ رعشہ (پارکنسنز) ایک پیچیدہ مرض ہے، مگر بروقت و درست تشخیص، ادویہ کے موزوں استعمال سے اس کی علامات کو کافی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

اس بیماری کا کوئی مستقل و دائمی علاج نہیں، مگر مریض مناسب علاج اور دیکھ بھال کی بدولت موٴثر زندگی گزار سکتے ہیں۔یاد رکھیے، ادویہ کے ساتھ فزیوتھراپی اور تیمار داری بہت اہم ہے۔
پارکنسنز کا مرض عمومی طور پر آہستگی سے بڑھتا ہے۔اگرچہ یہ بیماری جان لیوا نہیں، مگر اس کے نتیجے میں ہونے والی پیچیدگیاں اکثر جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں رعشہ کی بیماری کے حوالے سے معلومات میں کمی پائی جاتی ہے اور نہ صرف عام افراد بلکہ طب کے شعبے سے وابستہ افراد بھی اس کی علامات و تشخیص کے حوالے سے نابلد ہیں۔پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق رعشہ میں مبتلا لوگوں کی تعداد 6 لاکھ سے زائد ہے۔جن میں سے اکثریت کو اپنے مرض کے متعلق کوئی آگہی نہیں ہے۔پاکستان میں رعشہ کے مرض میں مبتلا افراد زیادہ تر 60 سال یا اس سے زائد عمر کے ہیں، لیکن اس بیماری میں 40 سے 50 سال کی عمر کے افراد بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں اس بیماری کی علامات کو بڑھاپے کا ایک مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔یہ ایک بیماری ہے، جو کہ بڑھاپے کا ردِ عمل نہیں۔اس بیماری کے نتیجے میں پٹھے اکڑ جاتے ہیں اور حرکات و سکنات سست روی کا شکار ہو جاتی ہیں۔
ایشیاء میں رعشہ کے مریضوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے، جن کی اکثریت بھارت، پاکستان اور قریبی ممالک میں موجود ہے، لیکن بڑھتی ہوئی غربت کے باعث یہ بیماری بہت حد تک نظر انداز کر دی جاتی ہے۔
پارکنسنز کے مرض کی خاص علامات میں روزمرہ زندگی کی حرکات و سکنات کی رفتار میں آہستگی کا ہو جانا، رعشہ کا ہونا (بالخصوص جب جسم کے اعضا حرکت میں نہ ہوں) ، عضلات میں لچک کا ضیاع، توازن برقرار رکھنے میں دشواری، پٹھوں میں تناؤ، چلنے کی رفتار میں کمی، چھوٹے چھوٹے قدم کے ذریعے چلنا اور چلتے وقت مڑنے میں دشواری و آہستگی کا شامل ہونا ہے۔پارکنسنز کی بیماری کے مسلسل بڑھتے رہنے کی وجہ سے مزید علامات ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔
ان میں چہرے کے تاثرات میں کمی، چہرے کا اُترنا، رال ٹپکنا، چال کا منجمد ہونا، گرنا، تھکاوٹ، ہاتھ کی لکھائی کا چھوٹا ہو جانا، قبض، ذہنی تناؤ، دباؤ، مثانے کی کمزوری، چکر آنا اور جلد خشک ہونا وغیرہ شامل ہیں۔پارکنسنز کے مرض کی درست تشخیص ماہر امراض و دماغ و اعصاب (نیورولوجسٹ) طبی معائنے سے کرتے ہیں۔اس کی تصدیق کے لئے کسی قسم کے لیبارٹری ٹیسٹ کی ضرورت نہیں۔
یہ امر مریض کے لئے ازحد ضروری ہے کہ اہلِ خانہ اس کی بیماری سے متعلق مکمل اور درست معلومات فراہم کریں۔باقاعدگی سے معالج کو دکھایا جائے۔نیز، مریض کی علامات کی تبدیلی پر کڑی نظر رکھی جائے۔علامات کی تبدیلی کے نتیجے میں فوری معالج سے رجوع کریں۔
ہر مریض کے علاج کی نوعیت مختلف ہوتی ہے، صحت بخش غذائیں، ورزش اور ادویہ کا بروقت استعمال علاج کی بنیادی کنجی ہے۔زیادہ سے زیادہ پانی، سبزیوں اور پھلوں کے استعمال سے مریض بہتر محسوس کرتا ہے۔یاد رہے کہ پارکنسنز ایک ایسی بیماری ہے، جس کا علاج ادویہ اور مثبت رویے سے ممکن ہے۔

Browse More Healthart