Malaria - Barwaqt, Durust Aur Mukamal Ilaj Naguzeer - Article No. 2957

Malaria - Barwaqt, Durust Aur Mukamal Ilaj Naguzeer

ملیریا ۔ بروقت، درست اور مکمل علاج ناگزیر - تحریر نمبر 2957

ملیریا کے مچھر اکثر غروب اور طلوعِ آفتاب کے درمیان کاٹتے ہیں، اس وقت خاص احتیاط کرنی چاہیے

منگل 29 اپریل 2025

ڈاکٹر محمد فرحت عباس
دنیا کی نصف آبادی ملیریا کے خطرات سے دو چار ہے اور پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے، جہاں یہ بخار بے حد عام ہے۔ملیریا ہر مچھر کے کاٹنے سے نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک خاص قسم کے مادہ مچھر اینوفیلیس (Anopheles) ہی کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔اس کی وجہ ایک پیراسائٹ ہے، جسے طبی اصطلاح میں پلازموڈیم کہا جاتا ہے۔
مچھروں میں پانچ اقسام کے پیراسائٹ جراثیم ہوتے ہیں، جو اپنی خوراک، انسانی خون سے حاصل کرتے ہیں۔ان اقسام میں پلازموڈیم ویویکس، پلازموڈیم اوول، پلازموڈیم ملیریائی، پلازموڈیم فیلسیپیرم اور پلازموڈیم نوولیسائی شامل ہیں۔ان تمام اقسام میں سب سے عام پلازموڈیم وائی ویکس اور سب سے خطرناک پلازموڈیم فیلسیپیرم ہے، جو افریقہ میں زیادہ پائی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

یہ انسانی دماغ پر حملہ آور ہوتا ہے اور بچوں میں موت کا سب سے بڑا سبب مانا جاتا ہے، جبکہ پلازموڈیم ویویکس عموماً بڑوں کو متاثر کرتا ہے۔ویویکس کے جراثیم اگر ایک بار جسم میں داخل ہو جائیں، تو آسانی سے مریض کا پیچھا نہیں چھوڑتے، نتیجتاً مریض بار بار ملیریا میں مبتلا ہوتا رہتا ہے۔پاکستان میں اس وقت پلازموڈیم فیلسیپیرم اور ویویکس دونوں ہی عام ہیں۔
واضح رہے، فیلسیپیرم سب سے زیادہ خطرناک پلازموڈیم ہوتا ہے، کیونکہ اس قسم کے پلازموڈیم سے خون کی نالیوں میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے، جس سے دماغ کو خون کی فراہمی منقطع ہو سکتی ہے۔اس صورتِ حال میں گردے فیل ہو سکتے ہیں۔گہری رنگت کا پیشاب آ سکتا ہے۔
پلازموڈیم کے دورِ حیات پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ مچھر کے معدے سے منہ میں داخل ہوتا ہے اور جب یہ مخصوص مچھر انسان کو کاٹتا ہے، تو انسانی خون میں داخل ہونے کے بعد سرخ خلیوں پر حملہ آور ہو جاتا ہے اور یہاں پرورش پاتا ہے۔
واضح رہے، ماں سے آنول (پلاسینٹا) کے ذریعے بھی ملیریا کی منتقلی ممکن ہے۔اس لئے پیدائشی ملیریا کے کیسز بھی دیکھے گئے ہیں۔ملیریا سے متاثرہ افراد میں عموماً جو علامات ظاہر ہوتی ہیں، اُن میں کپکپی کے ساتھ بخار، انفلوئنزا جیسی علامات، بخار جو عموماً اڑتالیس گھنٹے رہتا ہے، بے چینی، قے، کھانے پینے میں عدم دلچسپی، سر درد، جسم کے پٹھوں میں درد، تھکاوٹ اور یرقان کی کیفیت۔
ملیریا بخار کے تین درجات ہیں۔
سردی لگنا (Cold Stage):
لرزے کے ساتھ سر درد اور متلی کی شکایت ہوتی ہے۔سستی، تھکاوٹ کا احساس ہوتا ہے۔اس کے فوراً بعد شدید بخار چڑھ جاتا ہے۔
گرمی لگنا (Hot Stage):
یہ اسٹیج بتدریج ظاہر ہوتی ہے اور جونہی سردی لگنا ختم ہوتی ہے، اس اسٹیج کا دور شروع ہو جاتا ہے۔اس درجے کے دوران بھی مریض کو شدید بخار، سر درد اور متلی کی شکایت رہتی ہے۔
چند گھنٹوں بعد پسینے کی کثرت ہو جاتی ہے۔
پسینا آنا (Sweating Stage):
بخار آہستہ آہستہ کم ہونے لگتا ہے اور مریض کو بکثرت پسینا آتا ہے۔سر اور باقی جسم کے درد کی بھی شدت کم ہونے لگتی ہے۔اس درجے کے دوران عموماً مریض خوب سوتا ہے اور جب سو کر اُٹھتا ہے، تو خود کو بہت بہتر محسوس کرتا ہے۔
ملیریا بخار کے مضر اثرات کا ذکر کریں تو اس مرض سے متاثرہ افراد میں چونکہ خون کے سرخ خلیات متاثر ہو جاتے ہیں، اس لئے ان کے پھٹنے سے شدید یرقان اور خون کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔
اس کے علاوہ مرض کی سنگینی کی صورت میں جگر اور گردے خراب ہو سکتے ہیں اور مریض کومے میں بھی جا سکتا ہے۔ملیریا کے جراثیم اکثر جگر کے اندر پرورش پاتے رہتے ہیں اور جونہی انہیں موقع ملتا ہے یہ دوبارہ حملہ آور ہو جاتے ہیں۔اس لئے ملیریا کا بروقت، درست اور مکمل علاج ازحد ضروری ہے۔
عالمی ادارہ صحت ملیریا کی تشخیص، علاج اور اس کے خاتمے کے لئے بہترین گائیڈ لائن فراہم کرتا ہے۔
جیسا کہ بخار کی صورت میں سب سے پہلے خون کا ٹیسٹ کروایا جائے۔تشخیص کی بنیاد پر ملیریا کا علاج شروع کیا جائے۔اس کے علاوہ گھر میں اور گھر کے ارد گرد ان جگہوں کو ختم کریں، جہاں مچھر انڈے دے سکتے ہیں۔اگر آپ ایک ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں لوگوں میں ملیریا عام ہے یا آپ حال ہی میں وہاں سے آئے ہیں تو ملیریا کی علامات تیز بخار، بار بار پسینا آنا، کپکپی، سر درد، جسم درد، شدید تھکاوٹ، متلی، الٹیاں، دست کو ہر گز نظر انداز نہ کریں۔
گھر میں پانی ذخیرہ کرنے والے برتنوں جیسے بالٹی، کنستر، ڈرم، پھولدان اور گملوں کے نیچے رکھے ہوئے برتن اور پانی کی ٹینکی ڈھانپ کر رکھیں۔مچھروں سے بچاؤ کے لئے دروازے اور کھڑکیوں پر جالی لگائیں تاکہ مچھر اندر نہ آنے پائیں۔مچھر مارنے والی دواؤں کا اسپرے کیا جائے۔ملیریا کے مچھر اکثر غروب اور طلوعِ آفتاب کے درمیان کاٹتے ہیں، اس وقت خاص احتیاط کرنی چاہیے۔

Browse More Dengue