Tap E Diq - Article No. 2952

Tap E Diq

تپِ دق - تحریر نمبر 2952

ایک متعدی، لیکن سو فیصد قابل علاج مرض ہے

منگل 15 اپریل 2025

ڈاکٹر سیدہ صدف اکبر
ٹی بی جسے تپِ دق بھی کہتے ہیں، ایک قدیم ترین مرض ہے، جو Mycobacterium Tuberculosis نامی بیکٹیریا کی وجہ سے ہوتی ہے۔ویسے تو یہ بیکٹیریا عموماً پھیپھڑوں کے لمف نوڈز کو متاثر کرتا ہے، لیکن جسم کے مختلف حصوں مثلاً لمفی غدود، آنتوں، گلے، ہڈیوں، جوڑوں وغیرہ بھی اس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔اسے Extrapulmonary Tuberculosis کہتے ہیں۔
ٹی بی کا مرض چھپا ہوا یا پوشیدہ بھی ہو سکتا ہے، جو مخفی Latent ٹی بی، جبکہ فعال Active ٹی کہلاتا ہے۔مخفی ٹی بی میں مریض کے جسم میں ٹی بی کے جراثیم موجود ہوتے ہیں، لیکن اس مریض سے دوسرے لوگوں تک یہ مرض نہیں پھیلتا ہے، جبکہ فعال ٹی بی میں مریض دیگر افراد میں اس بیماری کے جراثیم منتقل کر سکتا ہے۔ٹی بی کے جراثیم مریض کے کھانسنے، چھینکنے، تھوکنے اور کسی فرد کے قریب بیٹھ کر سانس لینے سے بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

یوں یہ مرض تندرست فرد کو متاثر کر دیتا ہے۔پاکستان میں سالانہ تقریباً دو لاکھ سے زائد افراد ٹی بی میں مبتلا ہوتے ہیں۔زیادہ تر خطِ افلاس کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد اس موذی مرض کی لپیٹ میں آتے ہیں، کیونکہ انھیں مناسب اور ضرورت کے مطابق خوراک، صاف پانی اور مناسب رہائش دستیاب نہیں۔اندھیرے اور گٹھن زدہ ماحول میں بھی ٹی بی کے مرض کو پھلنے پھولنے کے مواقع زیادہ میسر آتے ہیں۔
پرانے اور گندے گھر، حفظانِ صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی اور غیر معیاری خوراک جیسے عوامل بھی ٹی بی کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس کے علاوہ گرد و غبار، دھول اور مٹی والے ماحول میں بھی اس مرض کے پھیلنے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔
اگر کسی میں مخفی ٹی بی ہو تو اس وقت تک کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتی ہیں، لیکن جب مرض فعال ہو جائے تو علامات ظاہر ہوتی ہیں۔
فعال ٹی بی کی علامات میں مسلسل تین ہفتے سے زائد کھانسی، گاڑھے اور بدبو دار بلغم کے ساتھ خون کا اخراج، بخار، بھوک کی کمی، جسمانی کمزوری، تھکاوٹ، نڈھال پن، وزن میں کمی، سینے میں درد، رات کو پسینے کی زیادتی، کھانسی کے ساتھ جھاگ اور بلغم کا رنگ زرد ہو جانا اور گلے کی سوزش، خاص طور پر لمفی گلینڈ کا سوج جانا، شامل ہیں۔اکثر اوقات پیشاب میں خون کی آمیزش بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
ٹی بی کا جرثوما اکثر لوگوں کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے، لیکن جسم کا دفاعی نظام اس کا مقابلہ کر کے ٹی بی میں مبتلا ہونے سے تحفظ دلاتا ہے۔ٹی بی کے جراثیم غیر فعال، مگر زندہ رہتے ہیں اور زندگی کے کسی بھی موڑ پر انسان کی قوتِ مدافعت کمزور پڑنے پر حملہ آور ہو کر مرض کو فعال کر دیتے ہیں۔مخفی ٹی بی کی تشخیص ٹیوبرکسن ٹیسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے، جبکہ فعال ٹی بی کی تشخیص کے لئے بلغم کا ٹیسٹ، ایکس رے، ایف این اے سی (FNAC) اور پی سی آر وغیرہ تجویز کیے جاتے ہیں۔
حتمی تشخیص کے بعد علاج کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ٹی بی کی کسی بھی قسم کی علامات ظاہر ہونے کی صورت میں اپنے قریبی مرکزِ صحت یا منتخب نجی لیبارٹری سے بلغم کا ٹیسٹ کروائیں۔اگر ٹی بی کا مرض لاحق ہو جائے، تو گھبرانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ عالمی ادارہ صحت کے زیرِ نگرانی طریقہ علاج کے ذریعے اس مرض سے مکمل صحت یابی ممکن ہے۔نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام اور عالمی ادارہ صحت نے DOTS نامی طریقہ علاج وضع کیا ہے، جس میں مرض کی تشخیص ہو جانے کے بعد ایک ذمے دار فرد کی زیرِ نگرانی ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویہ بغیر کسی وقفے کے مسلسل آٹھ مہینے تک استعمال کی جاتی ہیں۔

ٹی بی ایک متعدی لیکن سو فیصد قابل علاج مرض ہے۔اس موذی مرض پر قابو پانے کے لئے ہم جن اقدامات پر عمل درآمد کر سکتے ہیں، ان میں سب سے پہلے پیدائش کے بعد بچے کو بی سی جی کے ٹیکا لگوائیں۔علاج کا کورس مکمل کیا جائے ادھورا نہ چھوڑیں۔کیونکہ علاج کے ابتدائی دنوں میں مریض طبیعت میں بہتری محسوس کرنے لگتے ہیں اور کورس ادھورا چھوڑ دیتے ہیں۔
یاد رکھیے، علاج سے غفلت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔گھر کو صاف ستھرا رکھیں اور متوازن، معیاری خوراک استعمال کریں۔ہر وقت مسائل کو اپنے ذہن پر سوار نہ کریں، کیونکہ یہ بیماری یاسیت اور ہر وقت پریشان رہنے سے بھی لاحق ہو سکتی ہے۔مریض کو آرام دہ، پُرفضا اور پُرسکون ماحول میں رکھنا چاہیے۔مریض کے کھانے پینے کا سامان گھر کے دیگر افراد سے الگ رکھیں، تاکہ دیگر تندرست افراد اس مرض سے محفوظ رہ سکیں۔
مریض کا علاج کروانے میں حوصلہ بڑھائیں۔اس کے علاوہ مریض کو چاہیے کہ کھانستے، چھینکتے وقت منہ پر رومال یا کوئی کپڑا رکھ لے۔نیز، جگہ جگہ تھوکنے سے بھی گریز کرے۔مریض کو اس بیماری میں جسمانی اور ذہنی سکون و آرام کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ابتداء میں جب تک بخار کم نہ ہو جائے، مریض کو آرام کا مشورہ دینا چاہیے۔عمدہ اور ہلکی غذا جس میں پروٹین کی مقدار زیادہ ہو، استعمال کروائیں۔
انڈا، دودھ، یخنی وغیرہ بہترین غذا ہیں۔
ٹی بی کی بیماری کسی کو بھی متاثر کر سکتی ہے، مگر رسک فیکٹر میں مریض کے اہلِ خانہ، دوست احباب، وہ افراد جو صحت مند نہ ہوں یا زیادہ ہجوم کی جگہوں میں مقیم ہوں، وہ افراد جو ایسے ممالک میں رہ چکے ہوں، جہاں ٹی بی کی شرح نسبتاً زائد ہو مثلاً جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق یورپ کے بعض ممالک، ان والدین کے بچے بھی اس کا شکار ہو سکتے ہیں، جن کے اصل وطن میں ٹی بی کی شرح زیادہ رہ چکی ہو، ایچ آئی وی مرض یا کسی بیماری کے علاج کی وجہ سے جن کی قوتِ مدافعت کم ہو جاتی ہے اور منشیات کے عادی افراد جو غیر صحت مند ماحول میں رہتے ہوں، شامل ہیں۔
مریض کے ساتھ ہم دردانہ اور دوستانہ رویہ صحت یابی کے لئے ضروری ہے، لہٰذا مریض کو خوشگوار ماحول فراہم کریں اور عمدہ غذائیں کھلائیں۔

Browse More Healthart