Har Saal Hazaron Afraad Kidney Failure Ka Shikaar - Article No. 1517

Har Saal Hazaron Afraad Kidney Failure  Ka Shikaar

ہرسال ہزاروں افراد کڈنی فیلرکا شکار - تحریر نمبر 1517

گردوں کے امراض میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور اس میں اہم رول لوگوں کے لائف سٹائل کے تبدیل ہونے کا ہے۔ گردوں کی امراض دو قسم کے ہیں۔ ایک امراض وہ ہیں جو

پیر 18 مارچ 2019

فرزانہ چودھری
پروفیسر آف یورالوجی اینڈ کڈنی ٹرانسپلانٹ سرجن پروفیسر ریاض احمد تسنیم اپنے تجربہ اور مہارت کی بدولت یورالوجی کے شعبے کا ایک مستند نام ہیں۔ انہوں نے 1979ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس ، 87ء میں ماسٹر آف سرجری کی اور بیرون ملک بھی سرجری کی تربیت حاصل کی ۔وطن واپسی پر 1989ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل میں اسسٹنٹ پروفیسر یورالوجی تعینات ہوئے۔

انہوں نے 17 سال بطور پروفیسر آف یورالوجی اپنے فرائض انجام دئیے وہ لاہور کے نمایاں ہسپتالوں یعنی لاہورجنرل ہسپتال PGMI‘ سروسز ہسپتال سمز‘ میوہسپتال کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج اور فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں ہیڈ آف یورالوجی ڈیپارٹمنٹ رہے اور ان چاروں اداروں میں یورالوجی کے شعبے قائم کئے۔

(جاری ہے)

انہوں نے 99ء میں پہلی مرتبہ جنرل ہسپتال میں مفت ڈائیلسز اور کڈنی ٹرانسپلانٹ کا سلسلہ شروع کیا۔

انہوں نے جنرل ہسپتال‘ سروسز ہسپتال‘ میوہسپتال میں 100 سے زائد مفت کڈنی ٹرانسپلانٹ کیے۔ انہوں نے 2000ء میں سروسز ہسپتال میں ڈائیلسز مشینری لگائی جو ان کے وہاں رہتے ہوئے 2012 ء تک ایک گھنٹہ کے لئے بھی خراب نہیں ہوئیں۔سرجن پروفیسر ریاض احمد تسنیم ان دنوں ہیلتھ کیئرکمشن میں ڈائریکٹرشکایات کے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان کا سارا تجربہ گردے کے امراض کے علاج کے تدارک میں ہے ۔

پروفیسر آف یورالوجی اینڈ کڈنی ٹرانسپلانٹ اور ڈائریکٹر شکایات ہیلتھ کیئر کمشن سرجن پروفیسر ریاض احمد تسنیم سے گردوں کے امراض کے حوالے سے کی گئی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ریاض احمد تسنیم نے بتایا ’’گردوں کے امراض میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور اس میں اہم رول لوگوں کے لائف سٹائل کے تبدیل ہونے کا ہے۔ گردوں کی امراض دو قسم کے ہیں۔
ایک امراض وہ ہیں جو گردوں کے اپنے ا مراض ہیں۔ مثلاً گردوں کا ورم، گردوں کی پتھریاں، گردوں کی ٹی بی، گردوں کے کینسر یا گردوں کے پیدائشی نقائص ہیں۔ اسی طرح عمر کے ساتھ یورالوجی کی بیماریاں بڑتھی ہیں۔ مثلاً مثانے میں prostate gland بڑھ جاتے ہیں۔ مثانہ کمزور ہو جاتا ہے یا مثانے میں انفیکشن ہوتی ہے۔ یہ تو وہ تمام بیماریاں ہیں جو اعضاء کی اپنی بیماریاں ہیں۔
اور کچھ وہ بیماریاں جو باقی جسم کی ہیں مگر اس سے گردے متاثر ہو جاتے ہیں۔ مثلاً شوگر، بلڈ پریشر بنیادی طور پر خون کی بیماریاں ہیں لیکن چونکہ جسم کا سارا خون گردوں سے فلٹر ہوتا ہے اس لیے خون کی بیماریوں کے اثرات گردوں پر بھی ہوتے ہیں۔ اگر خون میں پریشر زیادہ ہے تو گردوں کی باریک نالیاں جو خون کو فلٹر کرتی ہیں وہ خون کے پریشر سے پھٹ جاتی ہیں۔
۔ شوگر گردوں کی چھوٹی نالیوں میں جمع ہو کر ان نالیوں کو کمزور کر دیتی ہے اسے عام زبان میںکہوںتو گردوں کی فلٹر میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں ۔گردوں کے فلٹر کے اندر ریخت ساخت کا عمل شروع ہو جاتا ہے مگر پھر دوبارہ دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ اس طرح گردے متاثر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح سلف میڈکیشن جیسے درد کی ادویات کا ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر بیجا استعمال گردوں کو متاثر کرتا ہے ۔
دنیا میں گردوں کے متاثراور فیل ہونے کی نمبر ون وجہ ڈاکٹر کے مشورے بغیر درد کی ادویات کااستعمال ہے۔ ہمارا ملک سلف میڈکیشن میں بہت آگے ہے۔ سلف میڈکیشن کے علاوہ عطائی ڈاکٹروں کے سٹیرائیڈاورکشتے استعمال کروانے سے لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔یہ چیز ذہن میں ضرور رکھیں کہ آپ جو چیزیں کھاتے ہیں اس کو فلٹر گردوں نے کرنا ہے۔ بنیادی طور پر گردے جسم کے اکائونٹنٹ ہیں۔
گردوں کا کام صرف فلٹر کرنا ہی نہیں بلکہ پورے جسم میں پانی کا اعتدال رکھنا ہے۔ اگر آپ نے کوئی ایسی چیز کھائی ہے جس میں بہت زیادہ نمکیات ہیں تو گردے ان نمکیات کا اخراج کر دیں گے۔ خون کی صفائی اور حون کے سرخ ذرات بننے میں مدد کرتے ہیں تاکہ جسم کا ہیموگلوبن برقرار رہے۔ گردوں کا کام بلڈ پریشر کو بھی کنٹرول کرنا ہے۔ ہارٹ،جگر اوردماغی حالت کوصحت مند رکھنے کے لیے گردوں کا صحیح کام کرنا ضروری ہے تاکہ جسم کے باقی اہم اعضاء اپنے افعال بہتر سرانجام دیں۔
گردوں کا شمار اعضائے رئیسہ میں ہوتا ہے جیسے دل، دماغ، جگر وغیرہ ہیں۔ان کے صحت مند رہے بغیر زندگی ممکن نہیں ہے۔ ‘‘

٭گردوں کے اچانک فیل ہونے کی وجہ کیا ہے؟

ج:گردوں کے فیل ہونے کی بھی دو قسمیںہیں۔ ایک تو یہ کہ کئی دفعہ گردے اچانک فیل ہو جاتے ہیں۔ دوسری قسم گردے اچانک فیل نہیں ہوتے وہ پہلے متاثر ہوتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ فیل ہوتے ہیں۔
اچانک فیل ہونے کی وجہ مثلاً بچوں کو اسہال اور ہیضہ ہو گیا جسم سے پانی اتنا زیادہ نکل جائے کہ گردے خشک ہوجائیں اور وہ اپنا کام سرانجام نہیں دے سکیں تو یہ گردوں کا اچانک فیل ہو گا۔ اسی طرح ڈلیوریزی میں زچہ کا خون زیادہ بہہ جائے تو اس میں بھی گردے اچانک فیل ہوتے ہیں۔ خدانخواستہ ایکسیڈنٹ ہوااور خون زیادہ بہہ گیا ، گردے فیل ہو گئے ۔ عام حالات میں کسی کو بہت زیادہ الٹیاں آ رہی ہیں اور وہ پانی پورا نہیں ہوا۔
تب بھی گردے اچانک فیل ہو جاتے ہیں۔ اچانک فیل ہونے والے گردے سو فیصد قابل علاج ہوتے ہیں۔اگر وقت پر علاج ہو جائے تو گردے مکمل اصلی حالت میں واپس آ جائیں گے۔ اچانک گردے فیل ہونے کی علامت یہ ہے کہ مریض کی دماغی حالت پر اثر پڑے گا، پیشاب بننا بالکل بند ہو جائے گا۔ بعض حالات میں سر میں درد بھی شروع ہو جاتا ہے۔ شوگر اور بلڈ پریشر کی بیماری میں گردے متاثر ہونے میں دس سے پندرہ سال کا عرصہ درکار ہے ۔
اسی طرح کچھ عرصہ لگتاہے اگر آپ اینٹی بائیوٹک،کشتے یا پین کلر ادوایات کھا رہے ہیں۔ ان ساری چیزوں کے استعمال سے گردے آہستہ آہستہ damage ہو رہے ہوتے ہیں اس لیے مریض کو عام طور پر پتہ نہیں چلتا۔ اس کی علامات میں مریض کو اچانک الٹیاں شروع ہو جاتی ہیںیا سانس پھولنے لگ جاتا ہے، یا پیٹ خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے اور پائوں اور چہرے پر سوجن نمودار ہو جاتی ہے ۔
یہ مرض مریض کے لیے تو اچانک سے ہوتا ہے لیکن یہ بیماریاں پرانی ہوتی ہیں،اس لیے ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر ادویات ہر گز استعمال نہ کریں۔
٭گردوں کی ٹی بی ہونے کی کیا وجہ ہے؟
ج:گردوں کی ٹی بی جنرل ٹی بی کا حصہ ہے اس کی دو وجوہات ہیں ۔ عام طور پر لوگوں کو پھیپھڑوں کی ٹی بی کے بارے میں پتہ ہے لیکن جسم کے ہر اعضاء کی ٹی بی ہو سکتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہڈیوں کی ٹی بی کے مریضوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
اسی طرح انتڑیوں کی ٹی بی بہت زیادہ ہے۔ جو مریض پھیپھڑوں ،ہڈیوں یا انتڑیوں کی ٹی بی میں مبتلا ہیں ان کا علاج نہ کروانے سے اس مریض کو گردوں کی ٹی بی ہو سکتی ہے۔ دوسری ٹی بی جو Exclusive گردوں کی ہو تی ہے یہ گردوں میں انفیکشن کی وجہ سے ہوتی ہے۔ گردوں کی ٹی بی کا بھی مکمل علاج ہے۔
گردے کی ٹی بی میں عام طور پر گردوں کی جگہ پسلیوں کے نیچے ہلکا سا درد رہنا شروع ہو جاتا ہے اور خاص کر پیشاب کا بار بار آنا اور جلن کے ساتھ آنا اس کی عام علامات ہیں۔

٭گردے اور مثانے کا کینسر وراثتی ہوتا ہے؟
ج:بدقسمتی سے گردے مثانے کے کینسر کے مریضوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے خاص کرمثانے کے کینسر میں ۔ یہ وہ کینسر ہے جس کے بارے میں ہمیں پتہ ہے کہ یہ کینسر کیوں ہوتا ہے۔ یہ کینسر ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ سگریٹ نوشی کرنے والوں کو 90 فیصد پھیپھڑوں کے علاوہ گردے اور مثانے کا کینسر ضرور ہوتا ہے۔
پوری دنیا میں تمام فیکٹریز میں سالانہ مثانے کے کینسر کی سکریننگ ضرور ہوتی ہے۔ ہوا میں دھواں اور کاربن کی زیادتی مثانے کے کینسر کی بنیادی وجہ ہے۔ گردے اورمثانے کے کینسر کیابتدائی علامت یہ ہے کہ پیشاب میں خون کا آتا ہے۔ ابتدائی سٹیج میں مثانہ اور گردے کا کینسر سو فیصد قابل علاج ہے۔
٭گندے پانی کے استعمال میں ہیپاٹائٹس بڑھ رہا ہے اس کے گردوں پر کتنے اثرات ہیں؟
ج:جب جگر متاثر ہوتا ہے تو گردے بھی متاثر ہوتے ہیں۔
ہیپاٹائٹس ہو نے سے گردے بھی متاثر ہو جاتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر ہیپاٹائٹس کنٹرول نہ ہو تو گردے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
٭شوگر کے مریض کو بار بار پیشاب کیوں آتا ہے؟
ج:شوگر کے مریض کو پیاس زیادہ لگتی ہے۔دوسرا خون میںشوگر بڑھنے سے جسم میں مائعات کا توازن خراب ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے مائع کا جسم سے زیادہ اخراج شروع ہو جاتا ہے۔ شوگر میں مریض کو زیادہ پیشاب آنا گردوں کے لیے اس لحاظ سے نقصان دہ نہیں ہے۔
دوسرا ایشو یہ ہے کہ آپ کو پیشاب کھل کر نہیں آ رہا۔ یہ مثانے کے امراض میں آ جاتا ہے کہ پیشاب کا پورا اخراج نہیں ہو رہا ہے۔ یہ شکایت بڑھاپے میں ان مردوں کو ہوتی ہے جن میں مردانہ غدود بڑھ جاتے ہیں جیسے پروسٹیٹ گلینڈ کا بڑھنا کہتے ہیں۔ مثانے میں پیشاب جمع رہنے سے مثانے میں سوزش شروع ہو جاتی ہے۔ 45 سال کی عمر کے بعدخواتین کو بھی پیشاب بار بار آنے کی شکایت ہو جاتی ہے بڑھاپے میں خواتین کو مثانے کی انفیکشن زیاہ ہوتی ہے۔
خواتین میںمثانے کی سوزش کی وجہ ہارمونز کی تبدیلی ہے۔ مینوپاز کے بعد ہارمونز کی تبدیلی سے مثانہ متاثر ہوتا ہے اور پیشاب کی نالی آہستہ آہستہ سکڑنے لگتی ہے اور خواتین میں مثانے کے انفیکشن کے چانسز زیادہ ہوجاتے ہیں۔ یہ مرض سوفیصد قابل علاج ہے ا ور اس کا ادویات سے علاج ممکن ہے۔
٭ڈائیلسز اور کڈنی ٹرانسپلانٹ میں سے بہتر طریقہ علاج کونسا ہے؟
ج: صحت مندگردوں کے ساتھ ہی زندگی ممکن ہے۔
بدقسمتی سے اگر گردے ناکارہ ہو جائیں تو ان کا کام ڈائیلسز مشین سے لیا جاتا ہے یا پھر کڈنی ٹرانسپلانٹ کروایا جاتا ہے۔ اگر گردے اچانک فیل ہو جائیں تو ادویات سے ان کا علاج ممکن ہے۔ اگر گردے مستقل طور پر فیل ہوں تو وہ واپس نہیں آ سکتے۔ ڈائیلسز ایک مصنوعی گردے کے طور پر کام کرتا ہے جس سے مریض زندہ رہ سکتا ہے مگر پرابلم یہ ہے اگر ڈائیلسز مشین بہت پرانی ہے تو خون صاف کر ہی نہیں پاتی۔
اس سے مریض کو انفیکشن ہو سکتا ہے۔ ڈائیلسز ایک قسم کا ICU کا procedure ہے۔ اس لیے اس کے استعمال میں احتیاط بہت ضروری ہے لیکن ناکارہ گردوں کا بہترین علاج تو کڈنی ٹرانسپلانٹ ہے۔ اگر گردہ تبدیل ہو جائے تو مریض سو فیصد نارمل زندگی گزار سکتا ہے۔ اب کڈنی ٹرانسپلانٹ کی اجازت میں قباحتیں بہت ہیں۔ جس مریض کو اس کی فیملی سے کوئی گردے دینے والا نہ ہو تو اس کی زندگی بچانے کی ذمہ داری معاشرے اور ریاست کی ہے۔
یہ حقیقت ہے کچھ لوگوں نے گردہ کے عطیہ کو بہت miss use کیا ۔ بدقسمتی سے گردہ مافیا گروپ بن گئے۔ قانون کے ساتھ اس کا تو قلع قمع ہوا لیکن اس سے مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔ بہت زیادہ مریضوں کا کڈنی ٹرانسپلانٹ نہ ہونے سے وہ اذ یت کی زندگی بسر کر ہے ہیں۔ پوری دنیا میں اس کا ایک بہترین حل ہے کہ لوگ مرنے کے بعد اپنے اعضا عطیہ کر دیں ۔ اگر کسی مرنے والے کا گردہ کا عطیہ مریض کو مل جائے تو وہ نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔
اس سلسلہ میں آگاہی مہم چلا نے کی ضرورت ہے۔ بہت سارے اسلامی ممالک میں اعضاء عطیہ کرنے کی اجازت ہے۔ محکمہ صحت کو اس طرف توجہ دین چاہئے۔ ہر سال کم ازکم 20 سے 25 ہزار گردے فیل ہونے والے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ قانون زندگی میں سہولیات کی فراہمی کے لیے بنائے جاتے ہیں ناکہ مشکلات پیدا کرنے کے لیے۔ گزشتہ پورے سال میں سرکاری ہسپتالوں میں بہت کم کڈنی ٹرانسپلانٹ ہوئے ہیں جسکی ایک وجہ یہ ہے کہ قانونی پیچیدگیاں اتنی زیادرہ ہو گئی ہیں کے کڈنی ٹرانسپلانٹ سرجنز خوفزدہ ہو گئے ہیں۔
محکمہ صحت کوچاہیے کہ وہ اپنا ایک section بنائے جو فری گردے کا عطیہ دینے والے لوگوں کو رجسٹر کرے۔ اور اُن مریضوں کا بھی اندارج کرے جو گردے کا عطیہ لینا چاہتے ہیں اگر کوئی ڈونر کسی مجبوری کی بناء پر اس عطیہ کا مواضہ لینا چاہتے ہیں تو اُن کیلئے کوئی قابل عمل ماڈل تیار کرے اور صاحب حیثیت مریضوں سے اُنکی ہر ممکن مدد کرائے۔ کیونکہ ایک گردے کے عطیے سے ایک انسان ایک کارآمد شہری کی طرح نارمل زندگی گزار سکتا ہے گردہ تبدیل ہونے والے مریضوں کو تا حیات کچھ ادویات استعمال کرنا پڑتی ہیں اسی طرح اُنکو اپنی صحت کیلئے خوراک کا پرہیز اور متوازن غذا بھی ضروری ہے ۔

ہمارے تمام سرکاری ہسپتالوں میں بہترین کڈنی ٹرانسپلانٹ سرجن موجود ہیں اور ان ہسپتالوں میں ٹرانسپلانٹ کے آپریشن میں کسی قسم کی corruption باکل ممکن نہیں ۔ ان ہسپتالوں کے یورالوجی ڈیپارٹمنٹ میں گردوں کی تبدیلی کے سو فیصد انتظامات موجود ہیں جنکو فعال بنانا بہت ضروری ہے تا کہ ایک عام شہری کو کڈنی ٹرانسپلانٹ کی سہولت میسر ہو۔

Browse More Liver