Diabetes Aur Sehat Mand Zindagi - Article No. 2316

Diabetes Aur Sehat Mand Zindagi

ذیابیطس اور صحت مند زندگی - تحریر نمبر 2316

کیا اس مرض کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے

پیر 6 دسمبر 2021

گزشتہ پچاس ساٹھ برسوں میں ذیابیطس کے مرض میں تیز رفتاری سے اضافہ ہوا ہے۔ناصرف ترقی پذیر بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی بری طرح اس مرض کی لپیٹ میں دکھائی دیتے ہیں۔
ذیابیطس کے پھیلاؤ کی وجوہات کیا ہیں․․․؟
اور کیا اس مرض کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے․․․؟
آئیے دیکھتے ہیں کہ میڈیکل سائنس اس کے بارے میں کیا کہتی ہے․․․؟
انسولین کا بنیادی کام خون کے اندر گلوکوز لیول کو کنٹرول میں رکھنا ہے۔
اس کے علاوہ یہ وٹامن،لحمیات،پروٹین وغیرہ کے پیچیدہ کیمیائی عوامل کے لئے مددگار ہوتی ہے۔گلوکوز دماغ اور جگر میں باآسانی جذب ہو جاتا ہے۔یہ دماغ کو توانائی فراہم کرتا ہے لیکن جسم کے دیگر سیلوں کے اندر اس وقت تک جذب نہیں ہوتا جب تک انسولین سیل کو گلوکوز جذب کرنے میں مدد نہ دے۔

(جاری ہے)

ذیابیطس ایک ایسا مرض ہے جو جسم کے اندر انسولین مقررہ مقدار سے کم یا ضرورت سے زیادہ ہو جانے کے باعث ہوتا ہے۔


ذیابیطس کی دو اقسام ہیں
انسولین ڈپینڈنٹ ذیابیطس (Insulin Dependent Diabetes Mellitus IDDM)جب جسم کے اندر انسولین بننا بالکل بند ہو جائے تو یہ انسولین ڈپینڈنٹ ذیابیطس کہلاتی ہے۔اسے پہلی قسم (Type-1) بھی کہا جاتا ہے۔انسولین کی غیر موجودگی میں جسم کے سیل جسم کے اندر موجود چربی سے توانائی لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے جسمانی کمزوری میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور مریض کمزور سے کمزور ہونے لگتے ہیں۔

ذیابیطس کی دوسری قسم نان انسولین ڈپینڈنٹ (Non Insulin Dependent) میں لبلبہ (Pancreas) انسولین کو خارج تو کرتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ سیل اس کو جذب نہیں کرتے۔یہ ذیابیطس کی دوسری قسم یعنی ٹائپ 2 بھی کہلاتی ہے۔ذیابیطس کے مریضوں کی بڑی تعداد ٹائپ 2 میں مبتلا ہوتی ہے۔یہ تعداد کل مریضوں میں تقریباً نوے سے پچانوے فیصد تک ہوتی ہے جبکہ صرف پانچ سے دس فیصد لوگ ٹائپ 1 میں مبتلا ہوتے ہیں۔
ذیابیطس 2 میں مبتلا لوگوں کی ایک بڑی تعداد موٹاپے کی طرف بھی مائل ہوتی ہے۔
ٹائپ 2 زیادہ کیوں ہے؟
ذیابیطس کی ٹائپ 2 کے زیادہ عام ہونے کی بڑی وجہ غذا لینے میں لاپرواہی ہے۔ایسے تمام لوگ جو بیس سال یا اس سے زیادہ عرصے اپنی غذا کے معاملے میں لاپرواہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔اکثر لوگ چھنا ہوا کاربوہائیڈریٹ استعمال کرتے ہیں مثلاً سفید روٹی،سفید چاول، فتیری آٹا (بغیر خمیر کے آٹا) وغیرہ۔
ایسی غذاؤں سے ذیابیطس ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
ذیابیطس کا غذا سے علاج ممکن ہے․․․؟
غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت بخش غذا اور باقاعدہ ورزش کے ذریعے ذیابیطس سے بہت حد تک چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔اچھا کھانا لینے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ پروٹین کی مقدار زیادہ اور کاربوہائیڈریٹ کو کم کیا جائے بلکہ سبزیوں کو اپنی غذا میں شامل کریں جو گلوکوز کی بہت کم مقدار فراہم کرتی ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق اگر غذا میں سے کاربوہائیڈریٹ کو بالکل ختم کرکے اس کی جگہ پروٹین اور چربی کو دے دی جائے تو ذیابیطس کا مرض بہت جلد لاحق ہو سکتا ہے۔اگر غذا میں معدنیات کو بڑھا دیا جائے جن میں کرومیم،میگنیشیم،وٹامن بی اور اومیگا 3 تیل (جو مچھلیوں میں ہوتا ہے) شامل ہوں تو انسولین کی سیل میں جذب ہونے کی صلاحیت بڑھائی جا سکتی ہے۔
غذا میں کاربوہائیڈریٹ کی مقدار کم ہونے کی صورت میں تین سے چھ ماہ میں وزن میں کمی ہونے کے ساتھ ساتھ بلڈ شوگر لیول اور انسولین کا لیول بھی کم ہو جاتا ہے۔
اگر ورزش کو باقاعدگی سے اپنا لیا جائے اور کچھ دیر تک پیدل چلا جائے تو ذیابیطس کے مرض میں جلد افاقہ ہوتا ہے۔ایک برطانوی ریسرچ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر روزمرہ غذا میں سبز پتوں والی سبزیاں شامل کی جائیں تو ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا امکان کم ہو سکتا ہے۔پھلوں اور سبزیوں کے استعمال سے متعلق چھ مختلف جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ پالک اور بند گوبھی نے اس سلسلے میں سب سے زیادہ مثبت کردار ادا کیا۔

برٹش میڈیکل جرنل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دن بھر میں اگر ان سبزیوں کا ڈیڑھ پورشن استعمال کیا جائے تو ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ چودہ فیصد تک کم ہو سکتا ہے تاہم ماہرین نے کہا ہے کہ صرف ان ہی سبزیوں پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ دن بھر میں مختلف پھلوں اور سبزیوں کے پانچ پورشنز استعمال کیے جائیں۔لیسیسٹر یونیورسٹی کے ریسرچرز نے اس ضمن میں دو لاکھ بیس ہزار بالغ افراد کی غذائی عادات اور ان کی صحت سے متعلق کوائف کا جائزہ لیا تھا،جس میں دیکھا گیا کہ عمومی طور پر تمام پھلوں اور سبزیوں کے استعمال سے صحت پر بہتر اثرات مرتب ہوئے تھے تاہم سبز پتوں والی سبزیوں کے استعمال سے جس میں بروکولی اور پھول گوبھی کو بھی شامل کیا گیا تھا،ٹائپ 2 ذیابیطس کی روک تھام میں بڑی مدد لی۔
ریسرچ ٹیم نے حساب لگایا ہے کہ اگر ان مخصوص سبزیوں کی روزانہ 106 گرام مقدار استعمال کی جائے تو ذیابیطس کا خطرہ چودہ فیصد کم ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ ایک برطانوی ”پورشن“ 80 گرام کے لگ بھگ سمجھا جاتا ہے۔یہ بات اگرچہ واضح نہیں ہو سکی ہے کہ سبز پتوں والی سبزیاں صحت کے لئے اس قدر مفید کیوں ہیں لیکن ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان سبزیوں میں وٹامن سی جیسے اینٹی آکسیڈنٹس کی بھرمار ہوتی ہے۔
یہ ایک دوسرا نظریہ ہے کہ اس قسم کی سبزیوں میں میگنیشیم کی سطح بھی کافی بلند ہوتی ہے۔ذیابیطس کے مرض میں انسولین کے نظام میں خرابی کے سبب جسم میں شوگر کی مقدار بڑھنے لگتی ہے اور جسم میں مختلف پیچیدگیاں پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ذیابیطس کی وجہ سے مختلف کمزوریوں پر قابو پانے کے لئے وٹامن اور نیچرل فوڈ سپلیمنٹ وغیرہ دیے جاتے ہیں۔
وٹامن وہ اجزاء ہیں جو نہایت کم مقدار میں جسم کے مختلف افعال کے لئے درکار ہوتے ہیں۔اگر ان وٹامن کی کمی ہو تو مختلف بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔وٹامن دو طرح کے ہوتے ہیں۔پانی میں حل ہونے والے وٹامن اور چکنائیوں میں حل ہونے والے وٹامن۔
ان وٹامنز کا فرق سمجھنا اس لئے ضروری ہے کہ چکنائیوں میں حل ہونے والے وٹامن جسم میں ذخیرہ ہوتے ہیں اور ضرورت سے زیادہ استعمال سے ان کے زہریلے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
پانی میں حل ہونے والے وٹامن جسم میں ذخیرہ نہیں ہوتے اور اگر ان کو ضرورت سے زیادہ لے بھی لیا جائے تو عموماً ان کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے کیونکہ یہ جسم سے خارج ہو جاتے ہیں۔ایک متوازن غذا میں تمام ضروری وٹامن موجود ہوتے ہیں اور زیادہ تر افراد کو الگ سے ان وٹامن کے استعمال کی ضرورت نہیں ہے۔کوئی بھی وٹامن باہر سے لینا اسی صورت میں فائدہ مند ہو سکتا ہے جب جسم میں واقعی اس وٹامن کی کمی ہو۔
اگر کسی وٹامن کی کمی نہیں ہے تو اس کو اضافی مقدار میں لینے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
پانی میں حل ہونے والے وٹامن
اس گروپ میں تمام وٹامن بی اور وٹامن سی شامل ہیں۔ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ وٹامن بی 12 کی کمی کی وجہ سے صحت کے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔بعض ڈاکٹروں کے خیال میں ذیابیطس میں لی جانے والی کچھ ادویات بھی،وٹامن بی 12 کی کمی کا سبب بنتی ہے۔
ایسے مریض جو طویل عرصے سے دوائیں استعمال کر رہے ہوں،انہیں بی 12 کا خون کا ٹیسٹ کروا لینا چاہیے۔صرف سبزیاں کھانے والے افراد میں اس وٹامن کی کمی ہو سکتی ہے۔وٹامن بی کے قدرتی ذرائع میں مچھلی،پنیر،انڈے،سی فوڈز،دلیہ،پولٹری،دودھ،چھاچھ اور بیف شامل ہیں۔ وٹامن سی پھلوں سے حاصل ہوتا ہے۔روزمرہ کی خوراک میں مختلف پھلوں اور سبزیوں جیسے کینو،انگور،آم،خربوزہ،پالک،پیاز،لہسن،لیموں وغیرہ شامل کرکے وٹامن سی کی کمی سے بچا جا سکتا ہے۔
وٹامن سی کی کمی سے جلد اور خون کی نالیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور مسوڑھوں سے خون آنے کی شکایت پیدا ہوتی ہے۔ذیابیطس کے مریضوں میں دانتوں اور مسوڑھوں کی بیماریاں دیگر افراد سے زیادہ پائی جاتی ہیں،اس لئے ان مریضوں کو وٹامن سی سے بھرپور غذا استعمال کرنی چاہیے۔
چکنائیوں میں حل ہونے والے وٹامن
ان میں وٹامن اے،ڈی اور ای شامل ہیں۔
وٹامن اے جلد کی صحت کیلئے اہم ہے۔وٹامن ای سے اعصابی نظام درستگی سے کام کرتا ہے۔ وٹامن کے سے خون کو جمنے میں مدد ملتی ہے ورنہ زخم کی صورت میں خون جمتا نہیں ہے اور بہتا رہتا ہے۔ہر وٹامن ایک ضروری کام انجام دیتا ہے۔جدید ریسرچ میں وٹامن ڈی کی کمی کو میٹابولک سنڈوم سے جوڑا گیا ہے۔چکنائیوں میں حل ہونے والے وٹامن چونکہ جسم میں ذخیرہ ہوتے ہیں،لہٰذا ان کو ضرورت سے زیادہ لینا صحت کے لئے مضر ہو سکتا ہے۔
غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسولین کی زیادہ مقدار ذیابیطس کی بیماری کے علاوہ بھی دیگر پیچیدگیوں کا سبب بن سکتی ہے جن میں کورٹیسول (اسٹرائیڈ ہارمون) کا بڑھنا موٹاپے کا سبب بنتا ہے،زیادہ کولیسٹرول اور اسٹروجن کی کم مقدار کی وجہ سے پولی سسٹک اووریز بنتی ہیں۔(زیادہ کورٹیسول کی وجہ سے پولی سسٹک اووریز ایسٹروجن کا اخراج کرتی رہتی ہیں۔اس طرح ایسٹروجن کی مقدار کم ہو جاتی ہے) یہی پولی سسٹک اووریز عورتوں میں بانجھ پن پیدا کر سکتی ہیں۔ ذیابیطس کی وجہ سے قوت بصارت میں واضح کمی آ سکتی ہے اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ آنکھوں کی کمزوری کا اندیشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

Browse More Sugar