Diabetes Ki Tareekh - Article No. 2454

Diabetes Ki Tareekh

ذیابیطس کی تاریخ - تحریر نمبر 2454

ذیابیطس اور انسان کا ساتھ ہزاروں برس قدیم ہے

بدھ 1 جون 2022

ذیابیطس اور انسان کا ساتھ ہزاروں برس قدیم ہے۔تاریخ کہتی ہے کہ ذیابیطس 1500 قبل مسیح بھی موجود تھی۔اس بات کا انکشاف مصر میں ایک ہرم سے ملنے والے قدیم کاغذ پپائرس (Papyrus) سے ہوا،جسے جرمنی کے ایک ماہر جارج ایبرس (Georg Ebers) نے 1862ء میں دریافت کیا۔
ذیابیطس کو ”ذیابیطس“ کا نام تیسری صدی قبل مسیح میں یونان کے ایک طبیب اپولونیئس (Apollonius) نے دیا۔
یونانی زبان میں ”سائفن“ کو ڈایابیٹیز (Diabetes) کہتے ہیں۔یہ نام اس لئے دیا گیا کہ اس مرض میں پیشاب بہت آتا ہے اور یہ عمل کسی سائفن کی طرح جسم کا پانی خارج کر دیتا ہے۔
مسلم سائنس دانوں نے بھی اس جانب توجہ کی۔نویں اور گیارہویں صدی عیسوی میں اس مرض پر کام ہوا۔بو علی سینا نے ذیابیطس کے حوالے سے تفصیلی بحث کی۔

(جاری ہے)


دنیا کے مختلف حصوں میں سائنسدان اس کوشش میں لگے رہے کہ اس مرض کی وجوہ اور اس کا علاج دریافت کریں۔

جرمنی کے ایک سائنسدان پال لینگرہنس (Paul Langerhans) نے 1867ء میں لبلبے میں خاص قسم کے خلیوں کے مجموعے دریافت کیے۔ان مجموعوں کو جزیراتِ لینگرہنس (Islets Of Langerhans) کہا جانے لگا۔جرمنی ہی کے دو سائنس دانوں نے 1889ء میں ایک اہم تجربہ کیا۔انھوں نے چند کتوں کے لبلبے نکال دیے۔بے چارے کتوں کو لبلبے سے محرومی کے بعد ذیابیطس ہو گئی اور وہ جلد ہی چل بسے۔
اب سائنس دانوں کو فکر ہوئی کہ آخر لبلبے میں ایسی کیا چیز ہے،جس کی کمی سے ذیابیطس ہو جاتی ہے۔اس سوال کا جواب کینیڈا کے ایک سرجن فریڈرک جی۔بینٹنگ (Frederick G. Banting) نے اپنے ایک شاگرد چارلس ایچ۔بیسٹ (Charles H. Best) کی مدد سے ڈھونڈ نکالا۔یہ اب سے ایک صدی قبل،یعنی 1920ء کی بات ہے۔استاد اور شاگرد نے مل کر کتوں کے لبلبوں سے ایک کیمیائی مادہ نکالا۔اس کیمیائی مادے کو ایسے کتوں کو استعمال کروایا گیا،جو ذیابیطس کے مریض تھے۔
مریضوں کو بہت فائدہ ہوا اور وہ اس وقت تک زندہ رہے،جب تک کہ انھیں وہ کیمیائی مادہ (یعنی انسولن) دیا جاتا رہا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کچھ ہی برس قبل ایک برطانوی سائنسدان سر ایڈورڈ البرٹ شرپائی شیفر (Sir Edward Albertsharpey Schafer) ذیابیطس کے سلسلے میں اس کیمیائی مادے کی اہمیت پر کام کر رہے تھے،جو لبلبہ تیار کرتا ہے۔انھوں نے اس مادے کو انسولن کا نام دیا۔
یہ نام انھوں نے لاطینی زبان کے لفظ ”انسولا“ (Insula) سے اخذ کیا۔”انسولا“ کے معنی ہیں ”جزیرہ“۔انھوں نے یہ نام اس لئے پسند کیا کہ یہ کیمیائی مادہ لبلبے کے وہ خلیے تیار کرتے ہیں،جن کو جزیرات لینگرہنس کہا جاتا ہے۔
ہم بات کر رہے تھے 1921ء میں انسولن کے کامیاب استعمال کی۔اگلے ہی برس،یعنی 1922ء میں لبلبے سے حاصل شدہ مادہ (یعنی انسولن) پہلی بار کسی انسان کو استعمال کروایا گیا۔
کینیڈا کے ایک ہسپتال میں 14 برس کا ایک لڑکا لیونارڈ تھامسن (Leonard Thompson) زیر علاج تھا۔اس کے خون میں شکر کی سطح بہت بلند ہو گئی تھی۔جب اسے انجکشن کے ذریعے انسولن دی گئی تو نتیجہ بہت اچھا نکلا۔لیونارڈ کے خون میں شکر کی سطح 24 گھنٹوں میں معمول پر آ گئی۔
اس تجربے نے دھوم مچا دی۔فریڈرک بینٹنگ کو لبلبے سے انسولن حاصل کرنے اور اس کے کامیاب استعمال پر نوبیل انعام سے نوازا گیا۔
بینٹنگ نے اپنے شاگرد چارلس بیسٹ کو بھی اس انعام میں شریک کیا۔
اس کے بعد انسولن کو بڑے پیمانے پر تیار کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوا۔ظاہر ہے کہ انسانی جان بچانے والی دوا کی ضرورت بہت سے افراد کو تھی۔ابتداء میں گائے اور خنزیر کے لبلبوں سے انسولن حاصل کی گئی،بعد میں بالکل انسانی انسولن جیسی انسولن تیار کر لی گئی۔اسے بڑے پیمانے پر تیار کرنے کے لئے خوردبینی نامیات (Micro Organisms) کے ڈی این اے (DNA) میں تبدیلیاں کی گئیں،جس کے بعد یہ خرد نامیے انسانی انسولن کی طرح انسولن تیار کرنے لگتے ہیں۔
یہ کامیابی 1978ء میں حاصل ہوئی۔
رب کریم کا یہ بہت بڑا کرم ہے،جس نے انسان کو اتنی سمجھ اور صلاحیت عطا فرمائی کہ وہ انسولن دریافت کر لے اور پھر اسے بڑے پیمانے پر حاصل بھی کرنے لگے۔انسولن کی دریافت کے بعد ذیابیطس کے علاج میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے اور کروڑوں انسان ذیابیطس کا شکار ہونے کے باوجود صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔

Browse More Sugar