Badshah Ka Dushman - Article No. 1406

Badshah Ka Dushman

بادشاہ کا دشمن - تحریر نمبر 1406

بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا- اس کی ایک بیٹی بھی تھی جس نام شہزادی نورین تھا-

جمعرات 9 مئی 2019

مختار احمد
بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا- اس کی ایک بیٹی بھی تھی جس نام شہزادی نورین تھا-
شہزادی نورین بے حد حسین اور خوبصورت تھی- وہ سولہ سترہ سال کی ہوگئی تھی اور بادشاہ کسی اچھے سے شہزادے کی تلاش میں تھا تاکہ شہزادی نورین کی اس سے شادی کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائے-
اس بادشاہ کا ایک وزیر بھی تھا جو بے حد لالچی، خود غرض اور مکار تھا- شہزادی نورین کی خوبصورتی نے اسے بھی متاثر کیا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ بادشاہ اس سے اپنی بیٹی کی شادی کردے تاکہ اسے شہزادی کے ساتھ ساتھ تخت و تاج بھی مل جائے- اس کی عمر کافی ہوگئی تھی مگر اس نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی-
اس نے ابھی تک کسی سے بھی اس بات کا تذکرہ نہیں کیا تھا کہ وہ شہزادی نورین سے شادی کرنا چاہتا ہے- ایک روز جب خوب تیز بارش ہو رہی تھی تو وزیر نے سوچا کہ یہ بارش تھم جائے تو وہ بادشاہ سے ملنے کے لیے اس کے محل میں جائے گا اور اس سے درخواست کرے گا کہ وہ اپنی شہزادی کے ساتھ اس کی شادی کردے-
شام کو بارش رک گئی- وزیر خوب بن ٹھن کر اپنے مکان سے نکلا اور بادشاہ کے محل کی طرف چل دیا- بادشاہ اپنے کمرے کی کھڑکی میں سے باغ کا نظارہ کر رہا تھا- بارش نے تمام پودوں کو نیا نکھار اور حسن بخشا تھا اور وہ بے حد دلفریب منظر پیش کر رہے تھے-
جب وزیر بادشاہ کے کمرے میں داخل ہوا تو اسے دیکھ کر بادشاہ خوش ہوگیا اور اس سے بولا-"آؤ- بیٹھو- ہم تمہیں ابھی یاد ہی کر رہے تھے"-
وزیر اس کا خوش گوار موڈ دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہونے لگا- اسے یہ امید ہو چلی تھی کہ بادشاہ چونکہ اس سے بہت خوش ہے اس لیے وہ اپنی شہزادی کی شادی اس سے کرنے پر آمادہ ہوجائے گا- وہ ایک مخمل کی آرام دہ کرسی پر بڑے ادب سے سر جھکا کر بیٹھ گیا-
بادشاہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا-
"اے وزیر با تدبیر- ہماری شہزادی اب بڑی ہو گئی ہے- ہم نے اس کی شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے"-
وزیر اپنی مسرت چھپاتے ہوۓ بولا "عالی جاہ! آپ نے بالکل درست فیصلہ کیا ہے- لڑکی ذات تو ویسے ہی ایک بوجھ ہوتی ہے- یہ بوجھ جتنی جلدی ہو سکے سر سے اتر جانا چاہیے- آج کل کے زمانے میں اچھے لڑکوں کی کتنی کمی ہے، آپ اچھی طرح جانتے ہیں- مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ........"-
بادشاہ نے وزیر کی بات پوری طرح بھی نہ سنی اور اس کا شانہ تھپتھپا کر بولا-
"شائد تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ تم شہزادی کے لیے کوئی اچھا سا شہزادہ تلاش کرو گے- ہم تمہاری وفاداری سے بہت خوش ہوۓ ہیں- اسی خوشی میں یہ ہار اور تین دن کی چھٹی انعام میں دیتے ہیں"-
یہ کہہ کر بادشاہ نے اپنے گلے سے سچے موتیوں کا ہار اتار کر وزیر کو دیا اور پھر بولا-
"ہم نے خود بھی شہزادی کے لیے ایک رشتہ ڈھونڈ لیا ہے- وہ ہمارے شمالی ملک کے بادشاہ کا بیٹا ہے- وہ آج کل یہاں آیا ہوا ہے اور ہمارا مہمان ہے- شہزادہ اور شہزادی ایک دوسرے سے بہت جلد گھل مل گئے ہیں- ہم بہت جلد دونوں کی شادی کردیں گے- وہ دیکھو دونوں باغ میں ٹہل رہے ہیں"-
وزیر کے تمام سپنے ٹوٹ گئے- بادشاہ کی بات سن کر اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا اور چہرے پر پسینہ پھوٹ پڑا- وہ آنکھیں پھاڑے اور منہ کھولے بادشاہ کو گھورنے لگا-
"ہمیں معلوم ہے اے ہمارے پیارے وزیر- تم شہزادی نورین کو بالکل اپنی بیٹی کی طرح چاہتے ہو- تمہاری یہ حالت بتاتی ہے کہ تمہیں اس کی جدائی کا کس قدر افسوس ہے- ہم بھی جب یہ سوچتے ہیں کہ شہزادی ہم سے بچھڑ کر اپنے گھر چلی جائے گی تو ہماری بھی بالکل ایسی ہی حالت ہو جاتی ہے- صبر کرو! بیٹیاں تو پرایا دھن ہوتی ہیں"-
یہ کہتے کہتے بادشاہ کی آواز رندھ گئی-
تھوڑی دیر بعد وزیر اس سے اجازت لے کر اپنے گھر آگیا- اسے اس بات کا بے حد ملال تھا کہ شہزادی کی شادی اس کے بجائے ایک شہزادے سے ہو رہی ہے-
چونکہ وزیر بے حد مکار تھا اس لیے اس نے سوچا کہ اگر وہ اپنی چالاکی سے بادشاہ کو قتل کردے تو اسے یہ تخت و تاج بھی مل سکتا ہے اور شہزادی سے اس کی شادی بھی ہو سکتی ہے-
وزیر کو ساری رات نیند نہیں آئی- وہ بادشاہ کو قتل کرنے کے مختلف طریقوں پر غور کرتا رہا- آخر اس کے ذہن میں ایک ترکیب آ ہی گئی-
اس نے سوچا کہ وہ بادشاہ کے باورچی کو اپنے ساتھ ملا کر بادشاہ کے کھانے میں کوئی زہریلی چیز ملا دے گا اور بادشاہ کے مرتے ہی وہ عارضی طور پر تخت و تاج سنبھال لے گا- اس کے بعد جب پوری طرح ملک کی باگ ڈور سنبھال لے گا تو شہزادی نورین سے شادی کرنا کوئی مشکل کام نہ ہوگا- یہ تمام باتیں سوچ کر وہ مطمئن ہو کر سو گیا-
اگلے روز صبح محل میں بادشاہ، ملکہ، شہزادی نورین اور شہزادہ شکیل ناشتے کے لیے بیٹھے ہوئے تھا- بادشاہ کے چہرے پر فکر مندی اور پریشانی کے آثار تھے- ملکہ اس کی شکل دیکھ کر بھانپ گئی کہ ضرور کوئی خاص بات ہے- اس نے جب بادشاہ سے اس بارے میں پوچھا تو بادشاہ نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا –
"میں نے رات ایک بھیانک خواب دیکھا تھا- میں نے دیکھا کہ میں جنگل میں شکار کھیلنے گیا ہوں- وہاں مجھے تھکن سی محسوس ہوئی تو میں ایک درخت کے نیچے سستانے کے لیے بیٹھ گیا- وہاں بیٹھے ہوئے مجھے زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ میرے پیچھے سے ایک سیاہ رنگ کا سانپ بڑی تیزی سے میری طرف بڑھا اور میرے پاؤں کو ڈس کر اپنے بل میں جا گھسا- میرا خوف و دہشت کے مارے برا حال ہوگیا تھا اور پھر اسی عالم میں میری آنکھ کھل گئی"-
بادشاہ کا خواب سن کر ملکہ بھی فکر مند ہو گئی- ناشتے کے فوراً بعد اس نے شاہی نجومی کو طلب کر کے اسے بادشاہ کا خواب سنایا اور اس خواب کی تعبیر پوچھی- اس نجومی کی عمر ایک سو اسی برس کی تھی- اس کے سر اور داڑھی کے بال روئی کے گالوں کی طرح ملائم اور برف کی طرح سفید تھے-
اس نے بڑے غور سے بادشاہ کا خواب سنا اور پھر اپنے ساتھ لائی ہوئی موٹی موٹی کتابوں کی ورق گردانی کرنے کے بعد وہ کچھ حساب کتاب کرنے لگا-
بادشاہ، ملکہ، شہزادی نورین اور شہزادہ شکیل جو کہ شہزادی نورین کا ہونے والا شوہر تھا، سب کے سب بوڑھے نجومی کو دم سادھے دیکھ رہے تھے-
تھوڑی دیر بعد نجومی نے حساب لگانے کے بعد ملکہ سے مخاطب ہو کر کہا-
"ملکہ صاحبہ! خدا بادشاہ سلامت کی عمر دراز کرے، ان کا ایک دشمن پیدا ہوگیا ہے- وہ موذی ہر قیمت پر جہاں پناہ کی جان لینا چاہتا ہے- بادشاہ سلامت نے جو سانپ دیکھا تھا وہ اسی دشمن کی طرف اشارہ ہے- میں اپنے علم سے صرف اتنا ہی پتہ چلا سکا ہوں- اس دشمن کا نام نہیں بتا سکتا- پھر بھی میں اتنا ضرور کہوں گا کہ اگر اس دشمن کو نہ پکڑا گیا تو وہ اپنی عیاری اور مکاری سے عالی مرتبہ بادشاہ سلامت کو ضرور نقصان پہنچا دے گا"-
نجومی کی بات سن کر ملکہ کے ہوش اڑ گئے- بادشاہ بھی بے حد غمزدہ ہوگیا اور شہزادی نورین کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے-
شہزادہ شکیل شہزادی نورین کو روتا دیکھ کر بے چین ہو گیا- اس نے بڑے پر عزم لہجے میں کہا-
"پیاری شہزادی! تم رنجیدہ مت ہو- میں جب تک زندہ ہوں- انشا الله بادشاہ سلامت کو کوئی بھی شخص نقصان نہیں پہنچا سکتا- میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارے پیارے ابّا حضور کے دشمن کو بہت جلد ان کی خدمت میں پیش کردوں گا"-
شہزادے شکیل کی بات سن کر شہزادی نورین کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی- بادشاہ اور ملکہ نے بھی اطمینان کا سانس لیا- انھیں امید تھی کہ شہزادہ شکیل اس دشمن کو پکڑنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گا-
بادشاہ وہاں سے اٹھ کر دربار میں چلا گیا کیونکہ دربار کا وقت ہوگیا تھا-
ملکہ اپنے دوسرے کاموں میں مصروف ہوگئی اور شہزادی نورین کی چند سہلیاں آگئی تھیں وہ ان کے ساتھ باتیں کرنے لگی-
شہزادہ شکیل کچھ سوچنے میں مصروف تھا- اچانک اس کے ذہن میں ایک بڑی اچھی ترکیب آگئی- وہ کمرے سے نکل کر باغ میں آیا- اس نے دیکھا کہ بادام کے درخت پر ایک طوطا بیٹھا ایک پکے ہوئے بادام پر اپنی چونچ مار رہا ہے-
شہزادہ شکیل بہت ہی آہستگی سے درخت پر چڑھا اور طوطے کو پکڑ لیا- پھر اس نے طوطے کو ایک بہت ہی خوبصورت پنجرے میں بند کیا- پنجرہ سونے کی تیلیوں کا بنا ہوا تھا-
شہزادہ شکیل طوطے کا پنجرہ لے کر دربار میں پہنچا- بادشاہ اپنے تخت پر بڑے بارعب طریقے سے بیٹھا ہوا تھا- تمام درباری فرش پر بچھے قیمتی قالین پر بیٹھے ہوئے تھے-
شہزادہ شکیل نے بادشاہ سے کہا –
"جہاں پناہ! میرے ابّا حضور نے یہ جادو کا طوطا آپ کے لیے بھیجا تھا- اسے قبول فرما کر شکریہ کا موقع دیں- یہ طوطا آپ کو ہر جمعرات کی صبح آپ کے دشمنوں کے ناموں سے آگاہ کیا کرے گا- کل جمعرات ہے، یہ جس شخص کا بھی نام لے، سمجھ لیجیے گا وہ آپ کی جان کا دشمن ہے"-
بادشاہ سمجھ گیا کہ شہزادہ شکیل اس کے دشمن کو پکڑنے کی فکر میں ہے- اس نے پنجرہ لے کر اپنے پاس رکھ لیا- تمام درباری اتنا بہترین اور عجیب و غریب طوطا دیکھ کر واہ واہ کرنے لگے مگر وزیر کی حالت غیر ہوگئی- اسے اپنی جان خطرے میں نظر آنے لگی چونکہ وہ ہی بادشاہ کا دشمن تھا اس لیے وہ اس جھوٹ موٹ کے جادو کے طوطے سے خوفزدہ ہوگیا تھا-
دربار سے فارغ ہو کر بادشاہ نے طوطے کا پنجرہ باغ میں سیب کے درخت پر لٹکا دیا- رات ہوئی تو وہ سب لوگ سونے کے بجائے ایک کمرے میں چھپ کر باغ کی نگرانی کرنے لگے- آدھی رات گزرنے کے بعد انہوں نے دیکھا کہ وزیر باغ کی دیوار پھاند کر اندر کودا اور طوطے کے پنجرے کو درخت سے اتارنے لگا- اس کے ہاتھ میں ایک چمکتا ہوا خنجر تھا- وزیر نے سوچا تھا کہ وہ طوطے کا خاتمہ کر دے گا تاکہ طوطا بادشاہ کے سامنے اس کا نام ہی نہ لے سکے مگر اس نے جیسے ہی پنجرے کا دروازہ کھولا، ویسے ہی بادشاہ، ملکہ، شہزادی نورین اور شہزادہ شکیل کمرے سے نکل کر اس کے سامنے پہنچ گئے-شہزادہ شکیل نے کہا "بادشاہ سلامت! آپ کا دشمن پکڑا گیا- یہ ہی وہ شخص تھا جو آپ کو موت کے گھاٹ اتارنے کے منصوبے بنا رہا تھا"-بادشاہ کی آنکھیں غصے سے انگارہ ہوگئیں- وزیر کی گھگھی بندھ گئی- وہ خوف کے مارے تھر تھر کانپ رہا تھا-بادشاہ نے اسی وقت چند سپاہیوں کو بلوا کر وزیر کو گرفتار کرلیا- وزیر نے اپنا جرم مان لیا تھا اور اس جرم کی وجہ سے اس کی ساری دولت ضبط کر کے اسے ملک بدر کردیا گیا-ملکہ اور بادشاہ شہزادہ شکیل کی ذہانت سے بہت خوش تھے-چند دنوں بعد شہزادی نورین اور شہزادہ شکیل کی شادی ہوگئی اور دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے�

(جاری ہے)

Browse More Moral Stories