کھانے اور چائے پر بلانا بھی ہراساں کرنے میں شامل

ہر ادارے میں ہراسانی سے متعلق ایک محکمہ لازمی ہونا چاہئیے۔ وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت کشمالہ طارق کی تجویز

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان منگل 21 جنوری 2020 10:49

کھانے اور چائے پر بلانا بھی ہراساں کرنے میں شامل
اسلام آباد ( اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار21 جنوری 2020ء) وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت کشمالہ طارق کا کہنا ہے کہ کھانے اور چائے پر بلانا بھی ہراساں کرنے میں شامل ہے۔کراچی میں خواتین کو دفاتر میں ہراساں کرنے کے خلاف ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے کشمالہ طارق نے کہا کہ ہراسانی کا واقعہ ہو تو والدین کہتے ہیں کہ لوگ کیاکہیں گے لیکن ہمیں یہ خوف ختم کرنا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔

انہوں نے کہا اگر کوئی ہراساں کرے تو وفاقی محتسب سیکریٹری برائے انسداد جنسی ہراسانی سے رابطہ کریں۔فوسپا مردوں کے حقوق کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔کشمالہ طارق نے کہا کہ کھانے اور چائے پر بلانا بھی ہراساں کرنے میں شامل ہے۔انہوں نے کہا جب عہدہ سنبھالا تو مہینے کے پانچ کیسز آتے تھے۔

(جاری ہے)

اب تعداد 60ہو گئی ہے اس ادارے میں وکیل کے بغیر بھی اپنا کیس لڑا جا سکتا ہے۔

آسانی کے لیے ہم نے آن لائن کیس فائل کرنے کا بھی آپشن دیا۔کشمالہ طارق نے کہا کہ ہر ادارے میں ہراسانی سے متعلق ایک محکمہ لازمی ہے۔ہمارے پاس طلبہ اور اساتذہ کے کیسز بھی فائل ہوتے ہیں۔ہم کیس فائل کر کے کسی کو اکیلا نہیں چھوڑتے۔خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل کشمالہ طارق نے ہراسیت کے حوالے سے ایک ویب میڈیا چینل کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ کسی کو گڈ مارننگ تو کیا کسی کی مرضی کے خلاف السلام علیکم کہنا بھی ہراسیت کے زمرے میں آتا ہے۔

اسی طرح کسی کو دیکھ کر طنزاً ماشاء اللہ کہنا بھی ہراسیت ہی ہے۔ اگر ماشاء اللہ عام گفتگو میں استعمال کر رہے تو یہ یقینی طور پر ہراسیت نہیں ہے،لیکن جیسے کچھ لوگ گزرتے گزرتے آوازیں کستے ہیں یا کسی خاتون کو دیکھ کر ”چشمِ بددُور“ یا ”ماشاء اللہ“ کہتے ہیں تو ایسی صورت میں یہ ہراسیت ہے۔ جہاں تک عورتوں کا معاملہ ہے اگر کوئی خاتون کسی کے سلام کے میسج کا ایک بار میں جواب نہیں دیتی تو بار بار اُسے السلام علیکم کا پیغام بھیجنا بھی ہراسیت ہی ہے۔

خواتین کو زیادہ تر کام کی جگہ پر ہراسیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔جب اُن سے سوال کیا گیا کہ کیا مرد بھی ہراسیت کی شکایات لے کر آتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس جو شکایات آتی ہیں وہ 80 سے 90 فیصد خواتین کی جانب سے مردوں کے خلاف ہوتی ہیں۔ جبکہ مردوں کی جانب سے آنے والی شکایات مردوں کے ہی خلاف ہوتی ہیں۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں