جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس: سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواست کی سماعت

جج یا کوئی شخص احتساب سے بالاتر نہیں ہے‘جب آئین سے ہٹیں گے تو ایسا ہی ہوگا. جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 28 جنوری 2020 15:46

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس: سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواست کی سماعت
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔28 جنوری۔2020ء) جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ جج اور کوئی شخص احتساب سے بالاتر نہیں ہے. جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی جہاں سندھ ہائی کورٹ کے وکیل رشید اے رضوی کے دلائل مکمل کرلیے گئے.

(جاری ہے)

دوران سماعت دلائل دیتے ہوئے رشید اے رضوی نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی جج کی مدت ملازمت سے مشروط ہے، جج کی مدت ملازمت کا تحفظ نہ ہو تو وہ حلف پر عمل نہیں کر سکے گا انہوں نے کہا کہ حکومت اور ایجنسیوں کو آزاد عدلیہ کبھی پسند نہیں آتی، دنیا بھر میں ججز کو عہدے سے ہٹانا مشکل ترین عمل ہے تاہم پاکستان میں یہ سب سے آسان ہے. جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا آپ آئین پر تنقید کر رہے ہیں؟ ججز کو برطرف کرنے کا طریقہ آئین میں واضح ہے انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل موجودہ کیس میں بھی قانون کے مطابق کام کر رہی ہے، نظام پر تنقید کے بجائے اپنے کیس پر دلائل دیںانہوں نے کہا کہ جج شیشے کے گھر میں رہتا ہے، جج بھی قابل احتساب ہے.

رشید اے رضوی نے کہا کہ آرٹیکل 209 کے نقطہ نظر میں تحفظ ہونا چاہیے جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کسی جگہ تو ریڈ لائن کھینچنی پڑے گی، موبائل فون سب سے بڑا جاسوس ہے، ٹیکنالوجی نے ہر چیز کو بدل دیا ہے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جج اور کوئی شخص احتساب سے بالاتر نہیں، جج کے خلاف اقدام آئین و قانون کے مطابق ہونا چاہیے.رشید اے رضوی نے عدالت میں کہا کہ ریفرنس کی سمری انکوائری بشمول جاسوسی پر مبنی ہے،12 مئی 2007 کے سانحے پر فیصلہ جسٹس کے کے آغا نے دیا، جسٹس کے کے آغا کو بھی ریفرنس میں نشانہ بنایا گیا.انہوں نے کہا کہ وسیم اختر نے عدالت میں خود تسلیم کیا کہ 12 مئی کو ان کی ہدایات پر کراچی میں سڑکیں بند کی گئیں میں نے دیوار کو کود کر ججز کو سندھ ہائی کورٹ میں جاتے دیکھا ہے انہوں نے کہا کہ بیرسٹر فروغ نسیم 12 مئی 2007 کے مقدمہ میں ایڈووکیٹ جنرل تھے اور اس وقت فروغ نسیم وزیر قانون ہیں.

جسٹس عمر عطا بندیال نے ان سے سوال کیا کہ 3 نومبر کو آئین کے ساتھ کیا ہوا تھا جس پر انہوں نے کہا کہ 3 نومبر 2007 کو وہی ہوا تھا جو 12 مئی 2007 کو ہوا تھا جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اب تو آئین موجود ہے جس پر رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ یہ 12 مئی کا جھگڑا ہے لوگ اپنا اسکور سیٹ کرنا چاہتے ہیں سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ جب آئین سے ہٹیں گے تو ایسا ہی ہوگا.

عدالت میں رشید اے رضوی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پاکستان بار کونسل کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل کا آغاز ہوا انہوں نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اثاثہ جات بحالی یونٹ (اے آر یو) نے جج کو حاصل تحفظ کی خلاف ورزی کرکے مواد حاصل کیا، وفاقی حکومت کے قواعد کے تحت اے آر یو کو یہ اختیار نہیں تھا.انہوں نے کہا کہ صدر مملکت سے اجازت لیے بغیر اے آر یو مواد اکھٹا نہیں کرسکتا تھا؟ اے آر یو کو آغاز میں یہ معلومات صدر مملکت کے سامنے رکھنی چاہیے تھیں انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو معاملہ پر قانون سازی کرنی چاہیے، جب تک قانون سازی نہ ہو تب تک طے شدہ طریقہ کار اپنانا پڑے گا.سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اعلی عدلیہ کے ججز کو ایسی انکوائری کے ذریعے ملزم نہیں بنایا جاسکتا، اے آر یو نے انکوائری کے ذریعے ججز کے خلاف مواد تلاش کرنے کی کوشش کی عدالتی بینچ میں شامل جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کسی جج کے مس کنڈکٹ کا ٹیکس اتھارٹی سے کوئی تعلق نہیںجسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ '2010 میں افتخار چودھری کیس کی گائیڈ لائینز ایگزیکٹیو پر لازم نہیں ہیں، یہ عدالت ایگزیکٹو اور جوڈیشل کونسل کے لیے حتمی گائیڈ لائینز نہیں دے گی طے ہے کہ ایگزیکٹیو کو ان گائیڈ لائنز کو فالو کرنا ہوگا.


اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں