اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے غیریقینی صورتحال اور پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے کو معیشت بنیادی کی رکاوٹوں وجہ قراردیدیا

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اہداف پورے کرنے کے لیے 1300 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی تجاویزتیار کرلیں‘ آئی ایم ایف واضح کرچکا ہے کہ اس کی جانب سے کوئی فہرست فراہم نہیں کی جاتی اس معاملے میں حکومتیں ہمیشہ جھوٹ بولتی آئی ہیں‘قومی خزانے پر اصل بوجھ آئی پی پیزجیسے معاہدے اور حکومتوں کے شاہانہ اخراجات ہیں.معاشی اموار کے ماہرین کی گفتگو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 15 مئی 2024 12:54

اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے غیریقینی صورتحال اور پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے کو معیشت بنیادی کی رکاوٹوں وجہ قراردیدیا
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔15مئی۔2024 ) اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے غیریقینی صورتحال اور پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے کو معیشت بنیادی کی رکاوٹوں وجہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ میکرو اکنامک اشاریوں میں کچھ بہتری کے باوجود غیر یقینی سیاسی صورتحال کے سبب ان رکاوٹوں میں اضافہ ہورہا ہے. اسٹیٹ بینک نے اپنی ششماہی رپورٹ میںمالی سال 2024میں شرح نمو 2 سے 3 فیصد رہنے کی پیشگوئی کی ہے مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال سے حقیقی معاشی سرگرمیوں میں معمولی بحالی ہوئی ہے.

(جاری ہے)

رپورٹ میں کہا گیا ہے غیر یقینی سیاسی صورتحال معاشی پالیسیوں، کمزور گورننس اور پبلک ایڈمنسٹریشن میں عدم مطابقت کے سبب صورتحال کو سنگین بنادیتی ہے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے طویل مدتی پروگرام پر آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت سے قبل پاکستان کے بارے میں اپنی اسٹاف رپورٹ میں گزشتہ ہفتے کہا کہ معیشت کے لیے منفی خطرات غیر معمولی طور پر زیادہ ہیں.

آئی ایم ایف نے کہا کہ سیاسی پیچیدگیاں اور بنیادی اشیا خریدنے پر زیادہ لاگت پالیسی پر اثرانداز ہوسکتی ہے اسٹیٹ بنک کی رپورٹ میں کہا گیا کہ کم بیرونی فنانسنگ کے ساتھ پالیسی پر عملدرآمد کیلئے ناکافی اقدامات قرض کی پائیداری کے لیے مشکلات مزید بڑھا سکتی ہے جبکہ شرح مبادلہ پر بھی دباﺅڈال سکتی ہے. مرکزی بینک نے رپورٹ میں کہا کہ سیاسی غیر یقینی صورتحال پالیسی میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتی ہے ‘ ساختی مسائل کی وجہ سے پیدا ہونے والے سب سے اہم چیلنجوں میں سے ایک بلند اور مسلسل افراط زر ہے.

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر یقینی صورتحال کے باوجود مہنگائی کم رہنے کی توقع ہے رواں سال کنزیومرپرائس انفلیشن گزشتہ سال کے مقابلے میں اپریل 17.3 فیصد تک کم ہو گئی جو تقریباً دو سالوں میں سب سے کم شرح ہے. دوسری جانب فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے مالی سال 2024-25 کے لیے 11.6 ٹریلین روپے سے 11.7 ٹریلین روپے کے محصولات کی وصولی کے تخمینے کو پورا کرنے کے لیے 1200 سے 1300 ارب روپے تک کے نئے ٹیکس اقدامات کی تجویز دی ہے”بزنس ریکارڈر“ نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایف بی آر نے بجٹ تجاویز کا ابتدائی خاکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ شیئر کیا ہے.

ایف بی آر نے اضافی ٹیکسز لگانے، ٹیکس استثنیٰ اور زیرو ریٹنگ کی سہولت واپس لینے اور رئیل اسٹیٹ‘ریٹیل سیکٹرز پر ٹیکس لگانے کا منصوبہ تیار کرلیا ہے ایف بی آر نے آئندہ مالی سال کے لیے ریونیو اقدامات کے ذریعے 1.2 ٹریلین سے 1.3 ٹریلین روپے جمع کرنے کا تخمینہ لگایا ہے اور آئندہ چند روز میں درست اعداد و شمار کو حتمی شکل دی جائے گی وزیر خزانہ کی جانب سے ایف بی آر کی بجٹ تجاویز کی منظوری ہونا باقی ہے.

معاشی ماہرین نے بھاری ٹیکسوں کی تجاویزکو ملکی معاشیات کے لیے خطرناک قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیکسوں کا بوجھ بڑھنے سے مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئی عام شہریوں پر مزید بوجھ آئے گا ان کا کہنا ہے کہ وزارت خزانہ بھی زمینی حقائق سے لاعلم ہے اور وہ ریونیو کلیکشن کے لیے فہرست ایف بی آر کو تھما دیتی ہے جبکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے حکام بھی دفاتر میں بیٹھ کرطے کرتے ہیں کہ کس پر کتنا بوجھ لادنا ہے پاکستان میں چونکہ کمزور ترین فریق عام شہری ہیں لہذا انہیں ہربار قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے.

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف واضح کرچکا ہے کہ اس کی جانب سے کوئی فہرست فراہم نہیں کی جاتی اس معاملے میں حکومتیں ہمیشہ جھوٹ بولتی آئی ہیں عالمی مانیٹری فنڈ قرض دینے سے پہلے صرف اس کی واپسی کے لیے تجاویزمانگتا ہے کرنسی کو ڈی ویلیو کرنا‘بجلی ‘گیس یا ضروریات زندگی کی اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ حکومتوں کا فیصلہ ہوتا ہے ‘انہوں نے کہا کہ قرض دینے والے ادارے کو قرض کی واپسی سے غرض ہوتی ہے اگر کوئی حکومت خود اپنے عوام کو ذبخ کرکے قرض واپس کرنے کی تجاویزپیش کرتی ہے تو قرض دہندہ کو اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے.

ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی پی پیزکے معاہدے اس کی مثال ہیں جن سے حکومتوں اور طاقتور حلقوں نے اندھا دھند پیسہ کمایا ہے جو بھی حکومت ان معاہدے کو ریویو کرنے کی کوشش کرئے گی وہ گر جائے گی کیونکہ اس سارے معاملے کے ساتھ انتہائی طاقتور حلقوں کے مفادات براہ راست جڑے ہیں عالمی معاہدوں کا ”کور“ ہونے کی وجہ سے انہیں پاکستان کی عدالتوں میں بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا یہ صرف ایک شعبہ ہے ‘پاکستان میں ہرشعبے میں یہی حال ہے دنیا کے عجوبہ ان معاہدوں کی قیمت عام شہری اداکرتے ہیں .

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ریٹلیلرزپر ٹیکس عائد کرنے سے کیا ہوگا وہ مارکیٹیں اور دوکانیں بند کردیں گے اور اربوں روپے روزانہ کی بنیاد پرجو ریونیو ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی مد میں اس شعبے سے آرہا ہے وہ بھی بند ہوجائے گا انڈسٹری پہلے سے بند ہے تو اکنامی کو بچانے کے لیے اب اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا کہ حکومتوں کے اخراجات کو کم کیا جائے‘اصل بوجھ قومی ادارے نہیں بلکہ وہ آئی پی پیزجیسے معاہدے ہیں جنہیں ریویو کرنے کی ضرورت ہے ان معاہدوں کا ازسرنو جائزہ لیا جائے ‘حکومت کی معاشی معاملات میں ”سنجیدگی“ کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم آفس کی تزئین وآرائش کے لیے 162اعشاریہ5ملین کی منظوری سے ہی سامنے آگئی تھی اس وقت بھی صدر اور وزیراعظم کے لاہور‘کراچی میں درجنوں” کیمپ آفس“ ڈکلیئرہیں یہی حال وزراءاعلی‘وفاقی اور صوبوں کے وزیروں کا ہے ان کے بھی ایک سے زیادہ ”کیمپ آفس“ہیں جن کے پر اٹھنے والے ماہانہ اربوں روپے کے اخراجات قومی خزانے سے اداکیئے جاتے ہیں ‘حکومتوں کو عوام کے حال پر رحم کرنا چاہیے اور اب اس شاہانہ طرزحکومت کو ترک کرکے قومی خزانے پر اس اضافی بوجھ کو ختم کرنا چاہیے .

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ”یواین ڈی پی“نے سال2012میں اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں حکومتی اشرافیہ‘مسلح افواج اور کارپوریٹ سیکٹر کو دی جانے والی مراعات کی مد میں سالانہ 17اعشاریہ 2ارب ڈالر خرچ کیا جاتا ہے اور اس میں ہر سال 5فیصد سے زیادہ اضافہ کیا جاتا ہے رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کی طاقتور اشرافیہ اسے اپنا استحقاق تصور کرتی ہے جبکہ اس کا بوجھ عام شہریوں کو اٹھانا پڑتا ہے.

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں