قومی اسمبلی میں نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے بل اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث منظور نہ ہوسکا ، اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی

نئی حلقہ بندیوں پر پیپلز پارٹی کی جانب سے تنقید پر عوامی نیشنل پارٹی ،جمہوری وطن پارٹی اور جماعت اسلامی کا احتجاج نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے بل منظور نہ کرنا درست تاثر نہیں ، چھوٹے صوبوں کی نشستوں میں اضافہ ہورہا ہے اسے قبول کیا جائے اور بل کو منظور کیا جائے، آفتاب شیرپائو پیپلزپارٹی اس لئے مخالفت کر رہی ہے کہ سندھ کی نشستوں میں اضافہ نہیں ہوا، اگر میرا لیڈر میرا فیصلہ نہیں مانتا تو مجھے استعفیٰ دے دینا چاہیے، غلام احمد بلور بل کو لانا اور منظور کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے ، حکومت اپنی تعداد پوری کرے ، اگر سپریم کورٹ چلا گیا اور سپریم کورٹ نے انتخابات میں تاخیر کرادی تو پھر کیا ہوگا، صاحبزادہ طارق اللہ

پیر 6 نومبر 2017 21:37

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 06 نومبر2017ء) قومی اسمبلی میں نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے بل اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث منظور نہ ہوسکا ، حکومت نے بل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر ادیا ۔ نئی حلقہ بندیوں پر پیپلز پارٹی کی جانب سے تنقید پر عوامی نیشنل پارٹی ،جمہوری وطن پارٹی اور جماعت اسلامی کا احتجاج ۔

جمہوری وطن پارٹی کے رکن قومی اسمبلی آفتاب احمد خان شیرپائو نے کہا کہ نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے بل منظور نہ کرنا درست تاثر نہیں ہے ، چھوٹے صوبوں کی نشستوں میں اضافہ ہورہا ہے اسے قبول کیا جائے اور بل کو منظور کیا جائے ۔عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر غلام احمد بلور نے کہا کہ پیپلزپارٹی اس لئے مخالفت کر رہی ہے کہ سندھ کی نشستوں میں اضافہ نہیں ہوا، اگر میرا لیڈر میرا فیصلہ نہیں مانتا تو مجھے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

(جاری ہے)

جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ بل کو لانا اور منظور کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے ، حکومت اپنی تعداد پوری کرے ، اگر سپریم کورٹ چلا گیا اور سپریم کورٹ نے انتخابات میں تاخیر کرادی تو پھر کیا ہوگا۔پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر نے کہا کہ کہا جا رہا ہے کہ چھوٹے صوبوں کی نشستوں میں اضافہ ہورہا ہے اور مردم شماری کے نتائج کو نہ چھیڑا جائے ، حکومت نے ہم سے غلط بیانی کی کہ بل سی سی آئی اور آئی پی سی میں لے جایا گیا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا ، سی سی آئی سے منظوری صوبوں کے مفاد میں ہے ۔

میر ظفر اللہ خان جمالی نے کہاکہ حکومت لوگوں کو اعتماد میں لیکر فیصلہ کرے ، رات کو وزیروں کے فون آتے ہیں کہ آپ نے اسمبلی میں آنا ہے اور خود موجود نہیں ہوتے ، ہم ملازم نہیں ہیں جس طرح وہ ایم این اے ہیں اسی طرح ہم بھی ایم این اے ہیں ، رات کے اندھیرے میں اگر معاملات حل ہوں گے تو ہم یہ قبول نہیں کریں گے ، جونیئرز سینئرز کو کچھ نہیں سمجھتے ۔

پیر کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت میں ہوا ۔ا جلاس میں وفقہ سوالات سے قبل نئی حلقہ بندیوں سے متعلق بل پر جمہوری وطن پارٹی کے رکن قومی اسمبلی آفتاب احمد خان شیرپائو نے کہا کہ نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے بل منظور نہ کرنا درست تاثر نہیں ہے ، چھوٹے صوبوں کی نشستوں میں اضافہ ہورہا ہے اسے قبول کیا جائے اور بل کو منظور کیا جائے ۔

پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر نے کہا کہ کہا جا رہا ہے کہ چھوٹے صوبوں کی نشستوں میں اضافہ ہورہا ہے اور مردم شماری کے نتائج کو نہ چھیڑا جائے ، حکومت نے ہم سے غلط بیانی کی کہ بل سی سی آئی اور آئی پی سی میں لے جایا گیا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا ، سی سی آئی سے منظوری صوبوں کے مفاد میں ہے ، ہمیں آئین کے مطابق کام کرنا چاہیے ، چھوٹے صوبوں کی نمائندگی میں اضافہ خوش آئند ہے اور ملک کیلئے بہتر ہے ، گفت وشنید کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جائے ۔

تحریک انصاف کی پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات پر بات ہونی چاہیے ، تین دن ہوگئے حکومت کے پاس بل کو منظور کرانے کیلئے اکثریت نہیں ہے ، حکومتی ارکان کا اسمبلی میں نہ آنا حکومت پر عدم اعتماد ہے ، حکومت اپنے ممبران پورے نہیں کر سکتی ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر غلام احمد بلور نے کہا کہ پارلیمانی رہنمائوں کے اجلاس میں فیصلہ ہوچکا تھا مگر پارٹیوں کی قیادت نے اسے نہیں مانا ، پنجاب کو سلام پیش کرتا ہوں کہ جن کی 9نشتیں کم ہوئیں مگر پھر بھی انہوں نے اسے قبول کیا ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کو کمزور کرنے کی بات کی جا رہی ہے ، پیپلزپارٹی اس لئے مخالفت کر رہی ہے کہ سندھ کی نشستوں میں اضافہ نہیں ہوا، اگر میرا لیڈر میرا فیصلہ نہیں مانتا تو مجھے استعفیٰ دے دینا چاہیے ۔

ایم کیو ایم کے رہنما عبدالوسیم نے کہا کہ شہری آبادیوں میں غلط مردم شماری ہوئی ہے ، آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے جس پر سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا کہ آبادی کم نہیں ہوئی ۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ پنجاب سے 9نشستیں کاٹ کر خیبرپختونخو اور بلوچستان کو دی گئی ہیں ، خوش آئند بات ہے ، بل کو لانا اور منظور کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے ، حکومت اپنی تعداد پوری کرے ، اگر اس کو بہانہ بنا کر وقت پر انتخابات نہیں ہونے دیے گئے تو یہ ملک اور جمہوریت کیساتھ زیادتی ہوگی ۔

صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن اگر سپریم کورٹ چلا گیا اور سپریم کورٹ نے انتخابات میں تاخیر کرادی تو پھر کیا ہوگا، مردم شماری درست انداز میں ہونی چاہیے ۔ میر ظفر اللہ خان جمالی نے کہا کہ حکومت کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے اور آئین کے مطابق کام کرنے کی ضرورت ہے ، ایک دوسرے پر کیچڑاچھالنا درست نہیں ہے ، مردم شماری میں 21 بلوچ ضلعوں کی کم دکھائی گئی ہے ،ہمیں بھی مردم شماری پر اعتراض ہے ، رات کو ایک کام اور دن کو ایک کام کیا جاتا ہے ، حکومت لوگوں کو اعتماد میں لیکر فیصلہ کرے ، رات کو وزیروں کے فون آتے ہیں کہ آپ نے اسمبلی میں آنا ہے اور خود موجود نہیں ہوتے ، ہم ملازم نہیں ہیں جس طرح وہ ایم این اے ہیں اسی طرح ہم بھی ایم این اے ہیں ، رات کے اندھیرے میں اگر معاملات حل ہوں گے تو ہم یہ قبول نہیں کریں گے ، جونیئرز سینئرز کو کچھ نہیں سمجھتے ۔

وزیر مکانات وتعمیرات اکرم خان درانی نے سپیکر کو اسمبلی کا اجلاس دو دن موخر کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ جو پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس میں ہی معاملے کو حل کیا جائے ، خیبرپختونخواور بلوچستان کی نشستوں میں اضافہ کر کے وہاں کی محرومیوں کا ازالہ کیا جا رہا ہے ۔ وزیر امور کشمیر وگلگت بلتستان چوہدری برجیس طاہر نے کہا کہ ملک بھر میں مردم شماری ہوئی ہے اور اس پر صوبوں کی اپنی اپنی آراء تھیں ، 10نومبر تک اگر نئی حلقہ بندیوں کا بل منظور نہیں ہوا تو الیکشن میں تاخیر ہوسکتی ہے ، نئی حلقہ بندیوں سے صوبہ پنجاب کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے مگر پھر بھی کسی نے اب تک پنجاب سے آواز نہیں اٹھائی اور اسے تسلیم کیا ہے ۔

اس ایوان میں بطور پاکستانی بات کرتے ہیں ، ہم میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے ، 10نومبر تک اس معاملے کو حل کیا جاناچاہیے ۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا کہ دو دن تک اس پر بیٹھنے کی ضرورت ہے جب تک حکومت اپوزیشن کے تحفظات حل نہیں کرے گی ہم نہیں اٹھیں گے ۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں