سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس

جمعرات 12 دسمبر 2019 20:53

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 دسمبر2019ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں جمعرات کو منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے ایجنڈے میں سینیٹر قرة العین مری کے 12 نومبر2018ء کے پیش کئے گئے پرائیوٹ ممبر بل برائے میٹرنٹی اینڈ پیٹرنٹی لیو بل 2018ء، محمد عرفان کی عوامی عرضداشت برائے سرکاری ملازمین کا فائلر بننے کیلئے آسان اور قابل سمجھ طریقہ کار، کاٹن انڈسٹری اور سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز کی ترقی کیلئے ایف بی آر کی پالیسی، ملک میں کام کرنے والے بینکوں کی کارکردگی کے حوالہ سے سٹیٹ بینک سے بریفنگ کے علاوہ تاجروں اور کاروباری کمیونٹی سے شناختی کارڈ کی شرط کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی نے سینیٹر قرة العین مری کے پرائیوٹ ممبربل برائے میٹرنٹی اینڈ پیٹرنٹی لیو بل 2018ء کی متفقہ طور پر منظوری دیدی۔ وزارت قانون کے حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ کمیٹی کی ہدایت کے مطابق سینیٹر قرة العین مری اور مصدق ملک کے ساتھ مل کر بل کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ محمد عرفان کی عوامی عرضداشت برائے سرکاری ملازمین کا فائلر بننے کیلئے آسان اور قابل سمجھ طریقہ کار مرتب کرنے کے حوالے سے کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ موبائل ایپ بھی شروع کر دی گئی ہے جس میں اردو اور انگلش زبان کے ذریعے فارم پر کرکے فائلر بن سکتے ہیں، ابھی یہ سہولت صرف تنخواہ دار طبقہ کیلئے ہے، آئندہ سال کاروباری حضرات کیلئے بھی سہولت دستیاب ہو گی۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2.6 ملین گوشوارے جمع کرانے والوں میں سے صرف 20 ہزار افراد کا مسئلہ ہے جو ہاتھ سے پر کرکے ٹیکس گوشوارے جمع کراتے ہیں۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ ایف بی آر سے نوٹس جاری ہونے پر جب جواب دیا جائے تو پھر اگلے سال ویسا نوٹس ہی دوبارہ آ جاتا ہے، اس طرح یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ اس مسئلہ کو جلد بہتر کر لیا جائے گا۔

قائمہ کمیٹی کو کاٹن انڈسٹری اور سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کی ترقی کیلئے ایف بی آر کی پالیسی اور کئے گئے اقدامات کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ بہتری کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ سمال انڈسٹری کیلئے پلانٹ مشنری میٹریل وغیرہ کی ڈیوٹی فری امپورٹ کی جا سکتی ہے، ایکسپورٹر کے ساتھ شعور آگاہی مہم بھی شروع کر رہے ہیں جس میں انشینٹیو بارے آگاہ کیا جائے گا۔

چھوٹے تاجروں کیلئے علیحدہ سسٹم نہیں ہے، کوشش کی جا رہی کہ ایک سہولت لائی جائے۔ سیکرٹری خزانہ نے کمیٹی کو بتایا کہ ایک جامع پالیسی تیار کی جا رہی ہے ، آئندہ اجلاس میں صرف پالیسی پر بریفنگ حاصل کی جائے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں 50 ہزار سے زائد خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط کے معاملہ کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ تاجروں سے بات کی تھی ، شناختی کارڈ کی شرط ختم نہیں کی گئی اگر خریدار غلط شناختی کارڈ دے تو کارروائی نہیں کر سکتے، اب معاہدے کے مطابق جنوری 2020ء کے بعد غلط شناختی کارڈ پر ایف بی آر کارروائی بھی کر سکے گا، اس حوالہ سے 30 اکتوبر 2019ء کو معاہدہ کیا گیا ہے، چھوٹے دکانداروں کی رجسٹریشن کیلئے انجمن تاجران کو شامل کر رہے ہیں، 3 ہزار مارکیٹ کمیٹیوں کا نوٹیفیکیشن جلد جاری ہو جائے گا۔

سینیٹرطلحہ محمود نے کہا کہ 50 ہزار کی حد بہت کم ہے ، اس سے مسائل پیدا ہوں گے، بہتر یہی ہے کہ کم از کم 5 لاکھ کی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط رکھی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس پالیسی کی وجہ سے چھوٹے دکاندار متاثر اور بڑے سٹوروں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ گھی، چینی اور چائے کے علاوہ دیگر کھانوں کی چیزوں پر ٹیکس نہیں لیا جا رہا۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ 25ویں ترمیم کے بعد فاٹا کیلئے کچھ معاہدے کئے گئے جن میں پانچ سال تک ٹیکس سے استثنیٰ وغیرہ شامل ہے اس پر کتنا کام کیا گیا ہے جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس حوالے سے کام ہو رہا ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فروٹ اور سبزی والوں کے پاس ریٹ لسٹ نہیں ہو تی ، اپنی مرضی کی قیمتیں وصول کرتے ہیں۔

سینیٹر مشاہد اللہ کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ ٹیکس وصولی کا نومبر تک کے ہدف کا 90 فیصد حاصل کر لیا گیا اور 1680 ارب روپے ٹیکس وصول کیا گیا۔ ٹیکس ریفنڈ کے حوالہ سے سینیٹر طلحہ محمود کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ 27 ارب کا ریفنڈ تھا، 16 ارب کلیم نہیں کیا گیا اور 12 ارب میں سے 8 ارب روپے ادا کر دیئے گئے ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ملک میں 20 پرائیویٹ سیکٹرز کے بینک کام کر رہے ہیں، اٴْن کی کارکردگی گزشتہ چند سالوں میں نمایاں بہتر رہی ہے۔

ستمبر 2018ء سے ستمبر 2019ء تک ان کے اثاثوں میں 17.18 فیصد اضافہ ہوا ان کے ذخائر میں 17.7 فیصد اور مارکیٹ شیئر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے چار سے پانچ سالوں میں ان کی کارکردگی میں کافی بہتری رہی ہے۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ حقیقت اس کے برعکس ہے ، بینک ڈیفالٹر کتنے ہیں، مارک اپ کی شرح پچھلے چند سالوں میں کیا تھی اور اب کیا ہے، لوگوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ کاروبار کی بجائے بینک میں رکھ کر مارک اپ حاصل کیا جائے۔

کمیٹی کو بتا یا جائے کہ حکومت کو تین سال پہلے کتنے قرض دیا اور اب کتنا قرض دیا جا رہا ہے۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہاکہ سٹیٹ بنک پاکستان مارکیٹ سے کتنے ڈالر خرید رہا ہے کمیٹی کو آگاہ کریں جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس ایجنڈے کو آئندہ اجلاس تک مؤخر کیا جائے۔ گورنر سٹیٹ بینک، سینیٹرز طلحہ محمو د، مشاہد اللہ خان اور میاں محمد عتیق شیخ کے سوالات بارے کمیٹی کو خود آگاہ کریں گے۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں یونیورسٹی آف کوٹلی کے طلباء و طالبات نے شرکت کرتے ہوئے کمیٹی کی کارروائی بھی دیکھی۔ کمیٹی کے اجلاس میں قائد ایوان سینیٹ سینیٹر سیّد شبلی فراز، سینیٹرز مشاہد اللہ خان، انوار الحق کاکڑ، میاں محمد عتیق شیخ، محمد اکرم، دلاور خان اور قرة العین مری کے علاوہ سیکرٹری خزانہ نوید بلوچ، چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی، ممبر کسٹمز ایف بی آر ڈاکٹر جاوید غنی، ڈپٹی ڈرافٹس مین وزارت قانون، ڈی جی سٹیٹ بنک آف پاکستان، ڈائریکٹر اسٹیٹ بنک آف پاکستا ن اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں