نقیب اللہ محسود کا قتل اور پولیس کا رویہ،کیا نقیب نا حق مارا گیا

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان جمعہ 19 جنوری 2018 18:27

نقیب اللہ محسود کا قتل اور پولیس کا رویہ،کیا نقیب نا حق مارا گیا
(اردو پوائنٹ تازہ اخبار 19جنوری 2018)نقیب اللہ محسود کے قتل نے پولیس سے متعلق کئی سوال کھڑے کر دئیے، پولیس کے اختیارات کی حد کیا ہے؟ پولیس اپنے اختیارات سے آگے کیوں نکل جاتی ہے؟اگر نقیب کے قتل میں راؤ انوار ملوث نکلے تو ان کی کیا سزا ہو گی؟ایسے کئی سوالات نقیب کے قتل نے اٹھا دئیے۔

پاکستان میں پولیس اور لوگوں کا رشتہ ہمیشہ ہی سوالیہ نشان بنا رہا ہے۔پولیس کی جانب سے لوگوں سے لی گئی رشوت ہو یا پھر پولیس کی جانب سے لوگوں پر جھوٹے مقدموں اور بلا وجہ تشدد کا معاملہ ہو ۔پولیس کے اس رویہ نے لوگوں کے دلوں پر قائم ان کے لیے بھروسہ ختم کر دیا ہے۔تبھی تو یہ حال ہے کہ لوگ پولیس سے خوف محسوس کرتے ہوئے اپنے فیصلے خودی کرنے لگ جاتے ہیں اور پولیس سے رابطہ نہیں کرتے۔

(جاری ہے)

نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد لوگوں میں شدید غضہ پایا جاتا ہے۔پولیس کا یہ کہنا کہ نبقیب غیر شادی شدہ تھا بھی غلط ثابت ہوا کیونکہ نقیب نہ صرف شادی شدہ تھا بلکہ اس کے بچے بھی ہیں۔پھر پولیس کا یہ کہنا بھی غلط ثابت ہوا کہ نقیب کراچی میں کوئی کام نہیں کرتا تھا کیونکہ نقیب کے دوست نے نقیب کی ایسی تصویر جاری کر دی جس میں وہ کمپنی میں کام کر رہا ہے۔

پھر پولیس نے یہ دعوی کیا کہ نقیب کا تعلق کسی دہشت گرد تنظیم سے تھا ،یہ بھی غلط ثابت ہوا کیونکہ اس مقصد کے لیے جیل میں موجود کلعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے قاری احسان کو جب نقیب کی تصویر دکھائی گئی تو اس نے پہچاننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ جس نقیب کو جانتا ہے وہ کوئی اور ہے۔ان تمام شواہد کے بعد کیا پولیس نقیب کے قتل کی ذمہ داری قبول کرے گی اور پاکستان کی عوام کو یہ بات بتائے گی کہ نقیب اللہ کو نا حق قتل کیا گیا۔

اس واقعے کے بعد کئی سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں پولیس کی پاکستان کے لئے بے شمار قربانیاں ہیں لیکن ایک بات تو یہاں طے ہے کہ پولیس کو عوام پر اپنا اعتماد بحال کرنا ہو گا۔اور پولیس میں موجود ایسے شرپسند عناصر جن کی وجہ سے پولیس کے کردار پر شک کیا جاتا ہے،ان کا پولیس جیسے مقدس ادارے سے صفایا کرنا بہت ضروری ہے۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں