nپولینڈ پاکستان تجارتی حجم 920ملین ڈالر سے زیادہ ہے، سفیر

پولینڈ کے تاجروںکو پاکستان لا کر پاکستانی ممکنہ شراکت داروں سے متعارف کرانا چاہتے ہیں، میسئیج پیسارسکی )پاکستانی برآمد کنندگان کو محدود تکنیکی وسائل، کسٹمز میں تاخیر سمیت انسپکشن کے چیلنجز کا سامنا ہے، افتخار شیخ

بدھ 22 مئی 2024 20:35

ﷺ&کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 مئی2024ء) پولینڈ کے سفیر میسیئج پیسارسکی نے کہا ہے کہ پولینڈ اور پاکستان کے درمیان مجموعی تجارتی حجم920 ملین ڈالر سے بھی زیادہ ہے جس میں سے پاکستان نے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کی وجہ سی800 ملین ڈالر کی اشیاء برآمد کیں جس کے تحت پولینڈ کی مارکیٹ تک پاکستانی اشیاء کو ڈیوٹی فری رسائی حاصل ہے جبکہ گزشتہ سال پولینڈ کی پاکستان کے لیے برآمدات 128 ملین ڈالر رہیں۔

انہوںنے کہاکہ ہم دستیاب مواقعوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی صلاحیت کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لائیں گے اور ہم ایسا ہی کر رہے ہیں یعنی پولینڈ کے کاروباری افرادکو پاکستان لا کر انہیں پاکستانی ممکنہ شراکت داروں سے متعارف کرانا اور انہیں ازخود تجربہ حاصل کرنے میں مدد کرنے کے علاوہ مستقبل کی شراکت داری کے حوالے سے پاکستان میں دستیاب مواقع تلاش کرنے کے حوالے سے بھی رہنمائی کررہے ہیں۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو پولینڈ کے ایک اعلیٰ سطحی تجارتی وفد کی قیادت کرتے ہوئے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں کراچی میں پولینڈ کے اعزازی قونصل جنرل مرزا عمیر بیگ، کے سی سی آئی کے صدر افتخار احمد شیخ، سینئر نائب صدر الطاف اے غفار، نائب صدر تنویر احمد باری، سابق صدر مجید عزیز، چیئرمین ڈپلومیٹک مشنز اینڈ ایمبیسیز لائژن سب کمیٹی فاروق افضل سمیت منیجنگ کمیٹی کے ارکان نے بھی شرکت کی۔

پولینڈ کے سفیر نے پولش پاکستان تجارتی و اقتصادی تعلقات کو وسعت دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پولینڈ کی تاجر برادری بہت پُراعتماد ہے اور اس نے نہ صرف روایتی مارکیٹوں بلکہ عالمی سطح پر رسائی کی اہلیت رکھتے ہوئے دلچسپ پیشکشیں بھی تیار کی ہیں۔ہمارا یہی کہنا ہے کہ ہم پاکستان کے اس دورے کو اسپانسر کرنے پر وزارت موسمیاتی کے بہت مشکور ہیں۔

یہ بالکل اسی قسم کی سرگرمی ہے جو سفارتخانہ اور عوامی انتظامیہ ہمارے تعاون کو بحال کرنے کے لیے کر سکتے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کراچی پولینڈ کی یادوں میں ایک بہت ہی خاص مقام رکھتا ہے کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے دوران کراچی ایک ایسی مقام تھا جہاں ہزاروں مہاجرین کو پناہ ملی۔یہ وہ جگہ بھی ہے جہاں دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد پولینڈ کے پائلٹوں، انسٹرکٹرز اور انجینئرز پاکستان ایئر فورس بنانے کی کوششوں میں شامل ہونے کے لیے آئے تھے۔

ان تمام سالوں کے دوران ہم نے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے آغاز سے پہلے ہی عوام سے عوام کے درمیان بہت مضبوط روابط استوار کیے ہیں۔پولینڈ اور پاکستان باہمی دلچسپی اور احترام پر مبنی 62 سال سے نتیجہ خیز اور باہمی تعاون پر مبنی تعلقات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں جو آج اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں یقینی طور پر ان تعلقات کو وسعت دینے کی بڑی صلاحیت موجود ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پولینڈ کی معیشت آج 1.4 ٹریلین ڈالر حجم کے ساتھ دنیا میں 21 ویں نمبر پر ہے اور یورپی یونین کی چھٹی سب سے بڑی معیشت ہے جس کی خصوصیت بہت زیادہ متحرک، جدت پسندانہ نقطہ نظر اور زبردست مزاحمت ہے۔ہم یورپی یونین میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت رہے ہیں اور 1990 کے بعد سے پولینڈ کی معیشت نی900 فیصد اضافہ کیا ہے۔اس سال پولینڈ کی درآمدات اور برآمدات تقریباً 700 ارب ڈالر رہیں۔

قبل ازیں صدر کے سی سی آئی افتخار احمد شیخ نے پولینڈ کے تجارتی وفد کا پرتپاک خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ بڑھتے ہوئے سفارتی و دوستانہ تعلقات کے باوجود یہ صلاحیت بڑی حد تک غیر استعمال شدہ ہے لہٰذا دونوں ممالک کے درمیان شراکت داری کے فوائد سے مکمل طور پر مستفید ہونے کے لیے تجارتی، سرمایہ کاری، اقتصادی، ثقافتی اور عوام کے درمیان تعلقات کو بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان کی مضبوط ٹیکسٹائل مینوفیکچرنگ کی صلاحیتوں میں دھاگے کی پیداوار، کپڑا سازی اور گارمنٹس کی پیداوار شامل ہے۔پولینڈ کی مارکیٹ میں بہت زیادہ ڈیمانڈ کے ساتھ پولینڈ کی فرموں کے لیے دونوں ممالک کی کاروباری اور مزدور طبقے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹیکسٹائل مینوفیکچرنگ یونٹس قائم کرنے یا موجودہ پاکستانی مینوفیکچررز کے ساتھ شراکت داری کے لیے سرمایہ کاری کے اہم مواقع موجود ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اپنے خصوصی اقتصادی زونز کو فروغ دے کر ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ اور ریگولیٹری عمل کو منظم کرنے جیسی مراعات پیشکش کر کے پولینڈ کی سرمایہ کاری کو بھی راغب کر سکتا ہے۔پولینڈ کی فرمز ٹیکسٹائل، زراعت اور سیاحت میں مواقع تلاش کر سکتی ہیں جبکہ مشینری، بجلی، فیرس میٹلز، موٹر وہیکلز، پلاسٹک، پیپر مصنوعات، کیمیکلز، پراسیسڈ فوڈ، بیوٹی پراڈکٹس اور تیل کے بیجوں میں پاکستانی سرمایہ کاروں کے لیے اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کر سکتی ہیں۔

صدر کے سی سی آئی نے نشاندہی کی کہ پاکستانی برآمد کنندگان کو محدود تکنیکی وسائل اور کسٹمز میں تاخیر سمیت انسپکشن کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ان مسائل کو حل کرنے کے لیے مارکیٹ کی ترجیحات کو ترجیح دیتے ہوئے کسانوں کے لیے آگاہی سیشن کی منصوبہ بندی اور کیڑے مار ادویات سے متعلق خدشات پر حکومتی تعاون کو بڑھانا اور لیبارٹری ٹیسٹنگ ضروری ہے۔

مزید برآں شپنگ کے دوران سامان کی جانچ کے لیے فریق ثالث کی لیبارٹری کو نامزد کرنا ضوابط کی بہتر پابندی کو یقینی بنا سکتا ہے۔انہوں نے زور دیا کہ تعلیم اور ٹیکنالوجی میں تعاون کو فروغ دینا دونوں ممالک کے لیے خاطر خواہ فوائد کا باعث بن سکتا ہے جیسا کہ اکیڈمک ایکسچینج پروگرام، باہمی تحقیقی منصوبے اور آن لائن ٹریننگ پلیٹ فارم پاکستان اور پولینڈ کے درمیان معلومات اور تکنیکی مہارت کے تبادلے میں سہولت فراہم کر سکتے ہیں۔

نمائشوں، تجارتی میلوں اور نیٹ ورکنگ سیشنز جیسے تجارتی پروگراموں کی ایک سیریز کی میزبانی نئے کاروباری مواقع کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔یہ ایونٹس پاکستانی اور پولینڈ کے تاجروں کو اپنی مصنوعات اور خدمات کی نمائش اور دیرپا کاروباری تعلقات استوار کرنے کے قابل بنائیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ملکوں کے ۱چیمبرز آف کامرس کی جانب سے مشترکہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم تیار کرنے سے تجارت و سرمایہ کاری کے فروغ کو نمایاں طور پر ہموار کیا جا سکتا ہے جو کہ مارکیٹ انٹیلی جنس، قانونی مشاورتی اور کاروباری میچ میکنگ سمیت جامع خدمات پیش کرسکتا ہے۔

اس کے علاوہ کاروباری اداروں کو باخبر رکھنے اور مارکیٹ کے تازہ ترین رجحانات اور ریگولیٹری اپ ڈیٹس سے منسلک رہنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں