فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں تبادلے و تقرریوں میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیاں

پیر 19 نومبر 2018 22:34

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 نومبر2018ء) موجودہ حکومت کے بڑے پیمانے پر گڈگورننس، انصاف اور شفافیت کے بلندوبانگ دعوئوں کے باوجود میرٹ اور سینیارٹی کی دھجیاں اڑا دی گئیں اور سپریم کورٹ کے احکامات کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) میں تجربہ کار اور سینئر افسران کو نظرانداز کر کے جونیئر افسران جو کہ اپنی خراب شہرت کی وجہ سے مشہور ہیں کو سینئر عہدوں پر تعینات کر دیا گیا ہے۔ان میں سے زیادہ تر کرپٹ افسران کو میرٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے اعلی عہدوں فائز کرنے کے پیچھے ممبر آئی آر حبیب اللہ خان کا اہم کردار ہے۔

(جاری ہے)

مثال کے طور پر قیصر اقبال جنہیں کرپشن کے الزامات پر کشمیر کونسل سے نکالا گیا تھا کو چیف کمشنر ان لینڈ ریونیو(CCIR) پشاور تعینات کیا گیا ہے جہاں ٹیکس چوری اور سگریٹ کی اسمگلنگ میں 5 کروڑ ماہانہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے اور کے خلاف 2012 میں کرپشن کے الزامات پر اریسٹ وارنٹ بھی جاری ہوچکا ہی.

20 گریڈ کے افسر ساجداللہ کو گریڈ 21 کی پوسٹ پر CCIR ریجنل ٹیکس آفس II تعینات کیا گیا ہی. ساجداللہ کو کرپشن کے الزامات کی وجہ سے گریڈ 21 میں ترقی نہیں دی گئی. موصوف FBR میں بگ شاٹ پلیئر کی شہرت رکھتے ہیں. شمس الہادی ایک اور 20 گریڈ کے افسر جن کو فیلڈ کا کوئی تجربہ نہیں کو گریڈ 21 کے عہدے پر CCIR آن پے اسکیل(OPS) اسلام آباد کے دو اہم ترین عہدوں لارج ٹیکس پیئر یونٹ اور ریجنل ٹیکس آفس(RTO) تعینات کیا گیا ہی.

یہ ایک ڈمی افسر کی شہرت رکھتا ہی. سعدیہ صدف گیلانی جو کہ ایک سابق وزیراعظم کی رشتے دار ہیں اور گریڈ 20 کی افسر ہیں کو گریڈ 21 کی پوسٹ CCIR RTO - I I لاہور OPS پر تعینات کیا گیا ہے جو کہ کمشنر کے عہدے کی اہل تک نہیں. صاحب ذادہ عبدالمتین ایک اور 20 گریڈ کا افسر جس نے ٹرائیبل ایریاز میں لاتعداد غیر قانونی ایگزمپشن سرٹیفکیٹس جاری کئے اور بلوچستان میں کول مائینرز سے بھتہ وصولی میں شہرت رکھتا ہے کو OPS پر گریڈ 21 کی CCIR RTO کوئٹہ کی پر تعیش پوسٹ پر تعینات کیا گیا ہی.

شاہد اقبال بلوچ اور گریڈ 20 کے افسر کو گریڈ 21 کی پوسٹ پر OPS کی بنیاد پر CCIR RTO حیدرآباد تعینات کیا گیا ہی. حامد عتیق سرور ایک اور گریڈ 20 کے افسر کو گریڈ 21 کی پوسٹ پر ممبر (FATE) تعینات کیا گیا ہی.گریڈ 20 کے ان افسران میں سے بیشتر نے نیشنل مینجمنٹ کالج کی لازمی ٹریننگ بھی مکمل نہیں کی. المیہ یہ ہے کہ متعدد بہترین سینئر افسران کو نظرانداز کیا گیا کیونکہ وہ حبیب اللہ خان کے متوقع معیار پر پورا نہیں اترتے تھی.

ان افسران میں نذیر احمد سومرو، اشفاق احمد تنیو، سیما شکیل، مصطفی ساجد حسن، شریف اعوان، شہر بانو، غلام مصطفی راہو، رضا منور، شاہ بانو شامل ہیں. یہ افسران یا تو گریڈ 21 میں ہیں یا گریڈ 21 کی ٹریننگ مکمل کر چکے ہیں اور ان میں سے متعدد اپنی تعیناتی کے تین سال بھی پورے نہ کر سکے اور اپنے عہدے سے ہٹا دئے گئے جو کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی کھلی خلاف ورزی ہی.

پوسٹنگز کی موجودہ صورتحال پر سینئر افسران میں شدید بیچینی پائی جاتی ہے اور اس صورت حال سے صاف واضح ہوتا ہے کہ ممبر آئی آر حبیب اللہ کے کیا مضموم عزائم ہیں اور چیئرمین ایف بی آر جہانزیب خان اپنی کارکردگی دکھانے میں قطعی طور پر ناکام رہے ہیں اور ان کی نااہلی کی وجہ سے سے جولائی سے اکتوبر تک ٹیکس وصولی میں 100 بلین روپے کا شارٹ فال آیا ہی. یہی رفتار رہی تو اس سال کے آخر تک یہ شارٹ فال 500 بلین روپے تک پہنچ جائے گا.

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں